Today ePaper
Rahbar e Kisan International

شعیب ہاشمی: علم، فن اور طنز و مزاح کا درخشاں باب”

Articles , Snippets , / Friday, October 24th, 2025

rki.news

تحریر احسن انصاری

اردو ادب، تھیٹر، اور ٹیلی ویژن کی تاریخ میں شعیب ہاشمی ایک ایسا نام جو تخلیقی دانش، تہذیبی شائستگی اور علمی وقار کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ فیض احمد فیض جیسے عظیم شاعر کے داماد ہونے کے باوجود، شعیب ہاشمی نے اپنی الگ شناخت نہ صرف بطور فنکار بلکہ بطور معلم، محقق، اور مزاح نگار قائم کی۔ ان کے انتقال کی خبر نے نہ صرف پاکستان بلکہ اردو زبان سے وابستہ دنیا بھر کے ادبی حلقوں کو سوگوار کر دیا۔ طویل علالت کے بعد 85 برس کی عمر میں وہ لاہور میں انتقال کر گئے۔

شعیب ہاشمی 1938 میں پیدا ہوئے اور تعلیم مکمل کرنے کے بعد گورنمنٹ کالج یونیورسٹی (GCU) لاہور سے وابستہ ہوئے، جہاں انہوں نے طویل عرصے تک تدریس کے فرائض انجام دیے۔ وہ نہ صرف علم و تحقیق کے دلدادہ استاد تھے بلکہ اپنے طلبہ میں تخلیقی سوچ اور فکری آزادی کو پروان چڑھانے کے قائل تھے۔ ان کی درس و تدریس میں ادب، تاریخ، فلسفہ اور سماجی علوم کا حسین امتزاج نظر آتا تھا۔

ٹیلی ویژن کے ابتدائی دور میں شعیب ہاشمی نے جو کام کیا، وہ پاکستانی نشریاتی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے 100 سے زائد ڈرامے تحریر کیے، جبکہ 400 سے زیادہ تھیٹر شوز میں شرکت کی۔ ان کے مشہور ٹی وی پروگرامز جیسے “اکڑ بکر”، “سچ گپ” اور “بچے من کے سچے” نے پاکستانی ناظرین کو تفریح، فکر اور شعور کا امتزاج فراہم کیا۔ ان کے طنزیہ اسلوب میں معاشرتی تضادات، سیاسی ناہمواریوں اور انسانی کمزوریوں کو اس انداز میں پیش کیا جاتا کہ ناظرین نہ صرف محظوظ ہوتے بلکہ خود احتسابی پر بھی مجبور ہو جاتے۔

شعیب ہاشمی کی فنی خدمات کا دائرہ محض ٹیلی ویژن تک محدود نہیں تھا۔ وہ ایک منجھے ہوئے تھیٹر آرٹسٹ بھی تھے، جنہوں نے اسٹیج پر طنز و مزاح کے ساتھ ساتھ سنجیدہ موضوعات کو بھی بڑے سلیقے سے پیش کیا۔ انہوں نے یونانی المیہ ڈراموں سمیت کئی عالمی کلاسیکی فن پاروں کا اردو میں ترجمہ کیا، تاکہ پاکستانی قاری اور ناظر ان شاہکاروں سے براہِ راست لطف اندوز ہو سکیں۔ ان کے تراجم میں زبان کی سلاست اور اصل متن کی روح برقرار رہتی تھی، جو ان کے فکری گہرے مطالعے کی عکاسی کرتی ہے۔

انہوں نے صحافت کے میدان میں بھی گراں قدر خدمات انجام دیں۔ مختلف قومی اخبارات میں ان کے 800 سے زائد مضامین شائع ہوئے جن میں سیاست، ادب، تاریخ، میڈیا، اور معاشرتی رویوں پر ان کی گہری بصیرت جھلکتی ہے۔ شعیب ہاشمی کا قلم ہمیشہ معتدل، سنجیدہ اور بامقصد رہا۔ وہ تنقید کرتے وقت بھی اصلاح کی نیت رکھتے اور طنز میں بھی شائستگی کو ملحوظ رکھتے تھے۔

سنہ 2009 میں دماغ میں ہیمرج کے باعث انہیں فالج کا حملہ ہوا، جس کے بعد وہ بسترِ علالت پر رہے۔ طویل بیماری کے باوجود، ان کا نام اور کام نئی نسل کے تخلیق کاروں کے لیے مشعلِ راہ بنے رہے۔ اتوار کی رات ان کی طبیعت بگڑنے پر انہیں اسپتال منتقل کیا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے ان کی حالت مستحکم قرار دی، لیکن پیر کی صبح وہ خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

شعیب ہاشمی کی خدمات کے اعتراف میں انہیں 1971 میں تمغۂ امتیاز اور 1996 میں تمغۂ حسنِ کارکردگی (Pride of Performance) سے نوازا گیا۔ اس کے علاوہ 1974 میں انہوں نے جاپان پرائز فیسٹیول میں Outstanding Merit Award حاصل کیا، جو ان کی بین الاقوامی سطح پر پذیرائی کا ثبوت ہے۔

شعیب ہاشمی کی وفات ایک عہد کے خاتمے کے مترادف ہے۔ وہ ان معدودے چند فنکاروں میں سے تھے جنہوں نے علم و فن کو یکجا کر کے پاکستانی ثقافت میں جدت، شائستگی اور فکری گہرائی پیدا کی۔ ان کا کام آج بھی نئے لکھاریوں، اساتذہ اور فنکاروں کے لیے تحریک کا سرچشمہ ہے۔

ان کی زندگی کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے نہ صرف دوسروں کو سوچنا سکھایا بلکہ ہنسنا، سمجھنا اور جینا بھی سکھایا۔ وہ ایک ایسے معلمِ فن تھے جن کے جانے سے اردو ادب، ٹیلی ویژن اور تھیٹر سب یتیم ہو گئے۔ ان کی یاد ہمیشہ پاکستانی ثقافت کے افق پر ایک روشن ستارے کی مانند جگمگاتی رہے گی۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International