rki.news
عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
7 ماہ قبل بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ شہر کے گنجان آباد علاقے سے دن دیہاڑے اغوا ہونے والے 10 سالہ طالب علم مصور کاکڑ کی لاش مستونگ سے مل گئی ہے۔ اغوا کنندگان مصور کاکڑ کو 15 نومبر 2024 کو اغوا کرنے کے بعد ہوئے ایک بڑے سرچ آپریشن سے نا صرف سلیمانی ٹوپی پہن کر خود کو بچانے میں کامیاب رہے، بلکہ جب انہوں نے دیکھا کہ تاوان کی رقم ملنا اب ممکن نہیں ہے تو معصوم مصور کاکڑ کو شہید کر کے بڑے آرام سے مستونگ جیسے کوئٹہ کے قریبی شہر میں لاش چھوڑ کر پھر سے گمنامی کے اندھیرے میں غائب ہو گئے۔ ہم سب کے علم میں ہے کہ معصوم کاکڑ کے اغوا کے بعد پورے صوبہ بلوچستان میں عمومی اور شہر کوئٹہ میں خصوصی طور پر بڑے بڑے احتجاجی اجتماعات کئے گئے، بلوچستان کے مختلف شہروں میں دھرنے دئیے گئے، پورے صوبہ میں ہڑتالیں کی گئیں، جس میں تمام شہریوں نے بنا رنگ و نسل بھرپور شرکت کر کے حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بھرپور زور دیا کہ اس واقعے میں ملوث مجرمان کو جلد از جلد گرفتار کر کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے اور معصوم مصور کو بازیاب کرایا جائے۔ شدید احتجاج پر حکومت نے مجرموں کو جلد گرفتار کرنے اور مجرموں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے وعدوں کا اعادہ کیا۔ مصور کاکڑ کو بازیاب کرنے کے لئے ایک بہت بڑے آپریشن کو لانچ کیا گیا۔ جس میں سندھ اور بلوچستان میں ملا کر 2000 سے زائد سرچ آپریشن کئے گئے، لیکن مجرم قانون کی گرفت میں نہ آ سکے۔ گزرتے وقت کیساتھ ساتھ ناصرف احتجاج میں کمی آتی چلی گئی۔ ایک بھرپور احتجاجی پریشر کے ہٹتے ہی شاید قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوششوں میں بھی سستی ہونے لگی۔ وقت گزرتا رہا اور رفتہ رفتہ یہ واقعہ شہریوں میں موضوع گفتگو کہ حد تک تو رہا، لیکن سب اس بات پر مخمصے کا شکار ہوتے چلے گئے کہ حکومتی آہنی ہاتھ کبھی ان مجرموں کی گردن تک پہنچ بھی پائے گا یا نہیں۔ ہمیشہ کی طرح دیگر واقعات کے وقوع پذیر ہونے پر لوگ اس واقعہ کی حساسیت اور اہمیت کو فراموش کرتے چلے گئے۔ مصور کاکڑ کے والد اور دیگر ہمدرد اپنی کوششوں میں مسلسل لگے رہے کہ حکومت پر دباؤ قائم رہے، اور امید کا دامن تھامے رکھا کہ شاید جلد ہی نا صرف مجرم پکڑےجائیں، بلکہ معصوم مصور کاکڑ کو بھی بازیاب کروا لیا جائے۔
اب 7 ماہ بعد اچانک مصور کاکڑ کی لاش ملنے کی خبر نے پھر سے تمام شہریوں کو اداس اور رنجیدہ کر دیا ہے۔ پھر سے قانون نافذ کرنے والوں کی کارکردگی پر سوالیہ نشان اٹھ رہا ہے۔ اتنے بھرپور آپریشن کے باوجود اغوا کنندگان نہ صرف اتنے ماہ روپوش رہنے میں کامیاب رہے، بلکہ موقع ملتے ہی بچے کو شہید کرنے کے بعد لاش آرام سے چھوڑ کر فرار ہونے میں بھی کامیاب ہو گئے ۔ شہری اب تک اس آہنی ہاتھ کا انتظار ہی کر رہے ہیں جس کے ذریعے ان مجرموں کو پکڑ کر کیفر کردار تک پہنچایا جانا تھا۔ معصوم مصور کاکڑ کے جنازے میں شہریوں کی بڑی تعداد میں شرکت نے ان کے اس واقعہ کے رونما ہونے پر نہایت غم و غصہ کے اظہار کو ظاہر کیا ہے۔ یہ ایک ایسا واقعہ نہیں ہے جس کو آسانی سے فراموش کر دیا جائے، بلکہ اس واقعہ نے ہر شہری کے دل میں خوف کے سائے کو جگہ دے دی ہے کہ کیا ہم اور ہمارے بچے محفوظ ہیں؟ کیا اب بھی حکومت مجرموں سے آہنی ہاتھ سے نمٹنے کا دعویٰ کرتے ہوئے یہ بات مدنظر رکھے گی کہ اگر آہنی ہاتھ کی گرفت سے مجرم پھسل جائیں تو عوام کا اعتماد بھی پھسل جاتا ہے۔ مصور کاکڑ کو زندہ بازیاب تو نہ کروایا جا سکا جو ایک نہایت تکلیف دہ حقیقت ہے، لیکن قانون نافذ کرنے والے ادارے اب مصور کاکڑ شہید کے اغوا کنندگان اور قاتلوں کو پکڑ کر شہریوں پر اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کر سکتی ہے۔ ایک منظم اور مربوط لائحہ عمل سے مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچا کر مصور کاکڑ کے والدین کو اس بات کا اطمینان دلا سکتی ہے کہ کوئی مجرم قانون کی گرفت سے بھاگ نہیں سکتا۔ ہم منتظر ہیں کہ کب حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے معصوم مصور کاکڑ کی لاش کو انصاف دلا کر مجرموں کے ذہن سے یہ بات نکال دیں گے کہ مجرم جرم کر کے آزاد رہ سکتے ہیں۔
Leave a Reply