صائمہ سحر(چشتیاں شریف)
آؤ! سناؤں تم کو اپنا
اک خواب رتجگے کا
کیا ہی سہانا خواب تھا وہ
جس میں میرے ساتھ تھا وہ
ہاتھوں میں ہاتھ پکڑے
ساتھ ساتھ چل رہے
دنیا سے بےخبر اپنی ڈگر میں
گھومے رہے تھے
سپنوں کا اک سہانا گھر تھا
جو محبت سے بنا تھا
کچھ وعدے محبتوں کے
کچھ وعدے ساتھ نبھانے کے
کچھ وعدے ساتھ جینے کے
کچھ ساتھ مرنے کے
کر رہے تھے۔۔
محبت کی وادیوں میں
کشتی اپنے پیار کی چلا رہے تھے
پھر ہوا یوں کہ!
وقت کی ظالم ہوا چلی
کشتی میری ڈوبنے لگی
وہ! جو ہمسفر تھا
وہ! بیچ سفر چھوڑ گیا
وہ وعدے، قسمیں سب
توڑ گیا
وہ مجھ سے نہ جانجانے کیوں؟
مکھ موڑ گیا
دل میرا توڑ گیا
آنکھ میری کھول گئ۔۔
ساتھ جب اس کا چھوٹا
میں ڈرنے لگی
“رب” سے دعا کرنے لگی
ہو نہ کبھی یہ حقیقت
کیونکہ وہ خواب تھا
میرا اک رتجگے کا!
Leave a Reply