Today ePaper
Rahbar e Kisan International

صوفی زلف دراز۔ لامکاں کے شہباز

Articles , Snippets , / Thursday, October 16th, 2025

rki.news

میں کسی ادبی پروگرام میں کرسی پہ بیٹھا سٹیج کی سمت نظریں جمائے کانوں میں سماعت کا رس گھول رہا تھا کہ میری پشت کی سمت سے گھنگرو کی اواز انے لگی اواز قریب ہوئی تو میں نے گھوم کر دیکھا طویل کھلے بال۔۔۔ پاؤں میں کھنکتی ہوئی لوہے کی زنجیر۔۔۔ ڈھیلی طرز کی صوفیانہ عبا اور چہرے پہ متانت کا افتاب۔۔۔۔ میری نگاہ اولین نے مجھے باور کروایا کہ موصوف کو کسی صوفیانہ کلام کے لیے زحمت دی گئی ہے میرے باطن میں عشق کی دھمال کا اغاز ہونے لگا ادبی پروگرام میں ایسی منفرد شخصیت کا جمال دھڑکنوں میں مقیم ہو گیا ادبی پروگرام اپنے عروج پہ تھا کہ ایک نام پکارا گیا جس کی منتج میں مذکورہ شخصیت ایک دھمال ڈالتی ہوئی طرز پہ خراماں ناز سٹیج کی سمت بڑھنے لگی میں ایک ٹک دیکھ رہا تھا جیسے سانس لینا موقوف ہو گیا ہو یعقوب فردوسی امیر بادشاہ ایک تمکنت کے ساتھ سٹیج پہ تھے اور اپنی تحریر کردہ چھ سات من کی کتاب کو ہوا کے دوش پہ لہرا رہے تھے اپنی کوتاہ ادراکی کی میں کیا بات کروں میں نادم ہو رہا تھا کہ میں ان کی شخصیت کو ایک صوفی کلام پیش کرنے والے کے خاکے میں فٹ کر رہا تھا جبکہ کتاب دیکھ کر معلوم ہوا کہ اپ تو ادبی اکھاڑے کے مستند پہلوان ہیں اور اتنی ضخیم ضخیم کتب کے مصنف ہیں میں سخت متحیر ہو رہا تھا دل خواھاں ہوا کہ یاد اللہ ہو جائے یہ میرا ان سے اولیں تعارف تھا جو کہ بالمشافہ ہو بالمعانقہ نہ ہو سکا وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حضرت والا اوصاف سے گاڑھی رفاقت کا شرف نصیب ہوا اور میں اس نتیجے پہ پہنچا ہوں کہ یعقوب فردوسی بھی ہیں امیر بھی ہیں اور بادشاہ بھی۔۔۔۔ اپنے شاعرانہ مزاج سے فردوسی ہیں طبع نفیس نے انہیں امیر کر رکھا ہے اور دل بے نیاز نے بادشاہت کی مسند نشینی پہ فائز کیا ہوا ہے یعقوب فردوسی ایک سچے عاشق رسول اور فنا فی الشیخ ہستی ہیں اپنی کتابوں کے ایک ایک لفظ سے محبت حبیب کبریا صلی اللہ علیہ والہ وسلم اشکار کرتے ہیں حضرت پیر مہر علی شاہ رحمت اللہ علیہ نے رسولی ماہیے تحریر فرمائے تھے جن کے ذریعے حضور کے اوصاف حمیدہ پیش کیے گئے تھے اور یعقوب فردوسی بھی اسی مشرب کی شخصیت ہیں حضور رسالت مآب سے عشق کرتے ہیں اور اس عشق کی حدت کو عوام الخاص تک پہنچاتے ہیں ائیے کچھ ماہئیے دیکھتے ہیں اور اپنے دل افگار کو تسکین و حظ کی ساعتوں میں مستغرق ہونے کا انتظام و انصرام کرتے ہیں
ایک نعت سنا لیتا ہوں
اے شاہ عرب
دل کو مدینہ بنا لیتا ہوں
دربار پھر سے سجایا جائے
اے شاہ عرب
دیدار سب کو کرایا جائے
دو جہاں میں نور ہو جائے
اے شاہ عرب
میری ایک نعت منظور ہو جائے
میری عادت ستھری ہے
صورت من و سلوی
مجھ پہ نعت اتری ہے
کندن میں ڈھلتے ہیں
عشق محمد میں
جو عاشق جلتے ہیں
پل پر روتا ہے
عشق محمد میں
جب فردوسی ہوتا ہے
یعقوب فردوسی کا باطن اصفیا کے فیوض و برکات سے مسجع و مزین ہے اور یہی تزین ان کے اسلوب سے جھانکتی دکھائی دیتی ہے شاعر اگر صوفی ہو تو اس کا کلام بحر بے کراں سے خیرات لے کر سطور پہ رقص کناں ہوتا ہے اور یہ رقص جب عشق کی دھمال کی صورت اختیار کرتا ہے تو انوار و تجلیات کا ابربرسنے لگتا ہے یعقوب فردوسی اپنے دامن میں اس نور کی خیرات چھپائے اگے بڑھ رہے ہیں اور ایک زمانہ اپ کے اس عشق سے مستفیض ہو رہا ہے یعقوب فردوسی کی کتب کی ضخامت و تعداد دیکھ کر رشک اتا ہے اور یہ سب اذن مصطفی کریم کا ثمر ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

محمد عمر ندیم


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International