Today ePaper
Rahbar e Kisan International

طارق عزیز: تاریخ، ثقافت اور فن کا امین

Articles , Snippets , / Thursday, July 3rd, 2025

rki.news

ڈاکٹر رحمت عزیز خان چترالی

پاکستانی میڈیا کی تاریخ میں چند ایسی شخصیات ہیں جنہیں وقت کی گرد بھی دھندلا نہ سکی۔ ان میں سرفہرست نام طارق عزیز کا ہے، جو نہ صرف پاکستان ٹیلی وژن کے اولین چہرے تھے بلکہ ایک ایسے ہمہ جہت فنکار، دانشور، میزبان، شاعر اور سیاستدان تھے جنہوں نے پاکستانی قوم کی فکری تربیت، تفریح اور سیاسی شعور کے ارتقاء میں کلیدی کردار ادا کیا۔
طارق عزیز 28 اپریل 1936 کو مشرقی پنجاب کے شہر جالندھر میں پیدا ہوئے۔ تقسیمِ ہند کے بعد ان کا خاندان ساہیوال (تب مونٹگمری) منتقل ہوا، جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی۔ بعد ازاں وہ لاہور منتقل ہو کر ریڈیو پاکستان سے وابستہ ہوئے اور 1964 میں جب پاکستان ٹیلی وژن کا آغاز ہوا تو وہ اس پر نمودار ہونے والے پہلے مرد اینکر بنے۔
1974 میں طارق عزیز نے پاکستان کے اولین اور طویل ترین جاری رہنے والے کوئز شو “نیلام گھر” کا آغاز کیا، جو بعد میں “طارق عزیز شو” اور “بزمِ طارق عزیز” کے نام سے جانا گیا۔ یہ شو محض تفریح کا ذریعہ نہیں تھا، بلکہ علمی و ادبی معلومات کو عام کرنے، قومی تاریخ سے عوام کو روشناس کرانے اور نوجوان نسل کی ذہنی تربیت کا ایک مؤثر ذریعہ بنا۔ ان کا معروف جملہ:”دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں، آپ کو طارق عزیز کا سلام پہنچے!”ایک پورے عہد کا نشان بن گیا، جو آج بھی ٹی وی میزبانوں کی زبان پر نقل ہوتا ہے۔
طارق عزیز کا سفر محض اسٹیج تک محدود نہ رہا۔ انہوں نے فلم انڈسٹری میں بھی کام کیا، جیسا کہ “انسانیت” (1967)، “ہار گیا انسان” اور “قسم اُس وقت کی ” اس دور بہترین فلمیں تھیں۔ وہ اپنی گہری آواز، بے باک اندازِ مکالمہ اور قومی احساسِ ذمہ داری کے لیے مشہور رہے۔
ان کا سیاسی کیریئر 1970 کی دہائی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ وابستگی سے شروع ہوا، جہاں وہ “فائر برانڈ سوشلسٹ” کے طور پر مشہور تھے۔ بعد ازاں وہ مسلم لیگ (ن) اور پھر (ق) میں بھی شامل ہوئے۔ اگرچہ سیاست میں ان کی موجودگی متاثر کن رہی، لیکن وہ میڈیا کی طرح اس شعبے میں کوئی مستقل مقام نہ بنا سکے۔ 1997 میں سپریم کورٹ پر حملے کے الزام نے ان کی سیاسی ساکھ پر گہرا اثر ڈالا، جو ایک اخلاقی سوالیہ نشان بن کر رہ گیا۔
طارق عزیز صرف ایک میزبان یا اداکار نہیں تھے، بلکہ ایک حساس اور بصیرت افروز دانشور بھی تھے۔ ان کی ادبی کتب جیسے ہمزاد دا دکھ (پنجابی شاعری)، اقبال شناسی (اقبالیات پر نثری کام)، ہزار داستان (اردو کالموں کا مجموعہ) اور فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک (ذاتی سیاسی و فکری سفرنامہ) شامل ہیں۔ یہ کتابیں ان کی فکری گہرائی اور قومی شعور کی علامت ہیں۔ خاص طور پر “اقبال شناسی” میں اُن کا اندازِ تحقیق، علامہ اقبال کی فکر کے فہم کو عام فہم زبان میں پیش کرتا ہے۔
طارق عزیز نہ صرف لفظی طور پر وطن پرست تھے بلکہ عملاً بھی اپنی دولت کو قوم کی فلاح کے لیے وقف کرنے والے تھے۔ ان کی بے اولادی کے باوجود انہوں نے اپنی تمام جائیداد قوم کے نام وقف کی۔ ان کا یہ اقدام پاکستان میں فلاحی جذبے کے فروغ کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
طارق عزیز کی شخصیت کئی جہتوں پر مشتمل تھی، لیکن ان کے بعض سیاسی فیصلے متنازعہ اور ان کے مداحوں کے لیے باعثِ حیرت رہے۔ سپریم کورٹ پر حملے جیسے واقعات میں ملوث ہونا ان کی شخصیت کے غیر متوقع پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ نیز، نئے دور کے نجی ٹی وی چینلز میں وہ اپنے مخصوص اسلوب کے ساتھ جگہ نہ بنا سکے، جو ایک روایتی فنکار کی جدید تقاضوں سے ہم آہنگی میں مشکلات کو ظاہر کرتا ہے۔
17 جون 2020 کو لاہور میں طارق عزیز کی وفات پر پورا ملک سوگوار ہوا۔ وزیراعظم عمران خان سمیت تمام قومی شخصیات نے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا۔ ان کا جنازہ ایک تاریخی لمحہ تھا، جہاں صرف ان کے چاہنے والے نہیں بلکہ نظریاتی کارکن بھی اشکبار نظر آئے۔
طارق عزیز پاکستان کی نظریاتی، ثقافتی اور میڈیا تاریخ کا ایک ناقابلِ فراموش باب ہیں۔ ان کی خدمات کا دائرہ علم و ادب سے لے کر اسٹیج، ٹی وی، فلم، سیاست اور سماجی خدمت تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کی زندگی ایک ایسی کہانی ہے جو “فٹ پاتھ سے پارلیمنٹ تک” کا سفر طے کرتی ہے، مگر اپنے اصولوں اور عوامی خدمت کے جذبے پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ یہ کہنا بجا ہو گا کہ “طارق عزیز نہ صرف ایک انسان بلکہ ایک ادارہ تھے، جو خود اپنے وقت کی تاریخ تھے!”


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International