دوسری قسط
پھر وہ دن آیا جب میں نے اپنے دل کا اظہار اُس پری وش سے کرنے کا مکمل ارادہ کیا، ہماری دوستی بہت گہری تھی اور مجھے محسوس ہوتا تھا کہ شاید اُسے بھی مجھ میں دلچسپی ہونے لگی ہے اس لیے میں نے موقع دیکھ کر اُس سے اپنی محبت کا اظہار ایک خط کے ذریعے کیا۔ مجھے ڈر تھا کہیں میرے اظہار کرنے سے ہماری دوستی بھی ختم نہ ہو جائے اور میں اس سے دور نہ ہو جاؤں مگر اس نے جواباً خط میں میرے اظہار کو قبول کرتے ہوئے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا
میں نے اپنے رب کا شکر ادا کیا اور سجدے ریز ہو گیا۔ اب ہماری تقریباً روز ہی ملاقات ہوتی تھی اور خط کے ذریعے ایک دوسرے سے باتیں ہوتی تھیں۔ اس بات کو کچھ ماہ گزرے تھے کہ میرے امتحانات قریب آ گئے جس کے لیے مجھے شہر واپس روانہ ہونا تھا
اب میں اس کشمکش میں تھا کہ کس طرح اپنی سانسوں کو چھوڑ کے جاؤں گا اور کیسے امتحانات دوں گا مگر شاید یہی نصیب تھا۔ پھر جانے سے ایک دن پہلے الوداعی نظروں سے اُسے دیکھا اور خط کے ذریعے سب بتا کے چل دیا، ہم دونوں کی آنکھوں میں آنسو تھے گویا دونوں اس جدائی سے ڈر رہے تھے۔ بلآخر ہمیں جدا ہونا پڑا اور میں شہر کی طرف روانہ ہو گیا
میں نے امتحان دیا لیکن خیال صرف اپنے محبوب کی خوبصورت آنکھوں میں گم تھا۔ میں نے جیسے بھی کر کے امتحانات دیے اور پھر اپنے گھر والوں سے اپنی محبت کا اظہار کرنا چاہا۔ میرا دوست گاؤں واپس چلا گیا اور میں اپنے گھر چلا گیا۔ موقع نکال کے میں نے گھر والوں سے بات کی تو وہ سب راضی ہو گئے اور بولا کہ اگر کوئی اچھی نوکری مل جائے تو رشتے کی بات کر لیں گے
میرا اُس سے کوئی رابطہ نہ تھا مگر میں ہر لمحہ اُسے سوچتا رہتا تھا میرے ذہن میں میرے خوابوں میں وہی قابض تھی۔ اب اس بات کو تقریباً ایک سال ہونے کو تھا پھر میرے گھر والے سب مل کر علی کے گاؤں گئے تاکہ میرے رشتے کی بات کر سکیں
اب تو جیسے سارا منظر بدلنے والا تھا جب میرے گھر والے واپس آئے تو میں نے خوشی خوشی پوچھا کہ بتائیں میری شادی میرے خوابوں کی رانی سے کب ہو گی تو میرے گھر والوں نے یہ کہتے ہوئی مجھے ڈانٹ کر خاموش کروا دیا کہ اب اس کی شادی ہونے والی ہے تم اُسے اپنے خواب و خیال سے نکال دو، وہ پیسے والے ہیں اور ہماری اتنی حیثیت نہیں کہ اُسے اپنے گھر لا سکیں
آج سے پہلے مجھے نہیں پتہ تھا کہ محبت کو حاصل کرنے کے لیے پیسوں کی ضرورت ہوتی ہے، خیر میں آنسوؤں کو صاف کرتے ہوئے سیدھا اُس کے گھر پہنچا اور موقع کے انتظار میں بیٹھ گیا کہ کہیں نظر آئے تو میں بات کر سکوں، چناچہ وہ جیسے سامنے آئی تو میں نے موقع نکال کے پوچھا کہ تم نے جو وعدے مجھ سے کیے تھے وہ سب کیا تھا اور میں نے ایسا کیوں سنا، اُس نے بس اتنا جواب دیا کہ جتنی تمہاری ایک ماہ کی تنخواہ ہے اتنا میرا ایک ہفتے کا خرچہ ہے، یہ کہہ کے وہ اندر چلی گئی اور میرے پاؤں سے تو جیسے زمین نکل گئی ہو، میرے بدن سے روح نکل گئی ہو
جب مقابل ہوں عشق اور دولت
حسن دولت کا ساتھ دیتا ہے
جون ایلیا صاحب
میں روتا ہوا اپنے دوست علی کے پاس پہنچا کیونکہ وہ میرے تمام تر جذبات سے واقف تھا۔ مجھے امید تھی کہ وہ میرا یار ہے میں اُسے بتاؤں گا تو وہ ضرور کوئی حل نکال گا۔ میں جب اُس کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ اس کے گھر بھی شادی ہے پتہ کرنے پر معلوم ہوا وہ اسی سے شادی کر رہا ہے جو میرے دل کی رانی تھی۔ اُس وقت مجھے معلوم ہوا کہ نہ دوستی نہ محبت زندگی میں صرف پیسہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔۔
ماہی رانا
Leave a Reply