rki.news
تحریر. ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور زندگی موت کے تعاقب میں
گل و گلزار سے گزرتی ہے
قصہ غم کی راجدھانی سے
سولہ سنگھار سے گزرتی ہے
کتنی بے نام مسکراہٹ سے
غموں کے ہار سے گزرتی ہے
کانٹوں کی باڑ سے گزرتی ہے
کتنی بے نام مسکراہٹ سے
کءی ادوار سے گزرتی ہے
کتنی بے فکر زندگی گزارتے ہیں ناں ہم اور آپ، ہنستے کھیلتے، آنے والے موسموں اور رتوں سے یکسر انجان، کچھ خبر نہیں، کچھ پتا نہیں کہ آنے والا وقت اور لمحہ ہمارے لیے کیا لے کر آتا ہے؟ ابھی تو ہم انسانوں کو اس بات کے لیے اللہ کا احسان مند ہونا چاہیے کہ ہم بے دھیانی میں ہی اپنے انجام سے ہنستے کھیلتے دوچار ہو جاتے ہیں، اگر ہمیں اپنے اپنے مستقبل سے آگاہی ہو جاتی تو دن، شامیں اور راتیں کتنی، اداس اور سوگوار ہوتیں، نہ ہم کھل کے ہنس سکتے، نہ رو سکتے، نہ کھا پی سکتے اور نہ ہی سو سکتے ایک انجانے خوف کی تلوار ہر وقت ہمارے سروں پہ منڈلاتی رہتی، ہمیں پریشان رکھتی اور کاروان حیات رک سا جاتا، مجھے اپنے دور پار کے ایک انکل جی یاد آ گیے وہ لاہور کے کسی مشہور پامسٹ سے بڑے ہی مہنگے داموں ہاتھ دکھا بیٹھے اس پامسٹ نے انھیں بتا دیا کہ آپ کی موت ایک حادثہ ہو گی، انکل صاحب ساری عمر کے لیے گھوم گیے، احتیاط سے زندگی گزاری، نہ خود جیے نہ بیوی بچوں کو جینے دیا رات کو سونے سے پہلے کءی کءی تالے لگاے جاتے،مگر بیچارے ایک دور پار کے رشتہ دار کی فوتگی پہ جاتے ہوئے روڈ سائیڈ ایکسیڈنٹ میں موقع پہ ہی جان کی بازی ہار گیے تو جو اللہ پاک نے لوگوں کو مستقبل کا حال جاننے سے منع کیا تو اس میں بھی انسان ہی کی بہتری و بھلای مقصود ہے، خالد ماموں ابھی پاوں پاوں ہی چلتے تھے کہ نانا جی گاوں سے جامن کے پیڑ کا ایک ننھا منھا پودا لے کر آے، پیڑ چند سالوں میں ہی بڑا ہو کے پھل لانے لگا، خالد ماموں اس درخت کے جامن کھاتے کھاتے ہی بچے سے بڑے اور پھر بڑے سے بزرگ ہو گیے، مگر جو مزہ انھیں جامن کے پیڑ سے توڑ کر جامن کھانے میں آتا تھا کسی بھی اچھے سے اچھے پھل سے بڑھ کر تھا، گویاان جامنوں میں کوی نشہ تھا یا جادو بہرحال کوی مقناطیسی کشش تھی جو خالد ماموں کو جب جامن پک کر تیار ہو جاتے تو خالد ماموں چھت پر چڑھ کر پکے ہوے تازہ موٹے موٹے جامن اتار کر خود بھی کھاتے اور پاس پڑوس میں بھی بانٹتے، زندگی کی پچپن بہاریں ایسے ہی دیکھ لیں، تین بچوں کے باپ تھے ایل ڈی اے میں اچھی پوسٹ پہ تھے مگر جامن کے پیڑ سے عشق ویسا ہی، اس جون کی ایک تپتی دوپہر کو بھی خالد میاں ظہر کی نماز باجماعت ادا کر کے سیدھے چھت پہ چلے گیے، بڑے بڑے جامن شاخوں پہ جھوم جھوم کر خالد ماموں کو اکساتے ہوے، اٹھکھیلیاں کرتے ہوے، دعوت نظارہ دیے رہے تھے، خالد ماموں نے ایک ٹوکری جامن بھر لی، دوسری ٹوکری میں جامن بھرنے کے لیے ایک نسبتاً نیچے جھکی. ہوی شاخ پہ تقریباً لٹک ہی گیے، توازن خراب ہوا خالد ماموں تقریباً چالیس فٹ کی بلندی سے فرش پہ آ گرے، جبرائیل ان کے ساتھ ساتھ ہی تھا، خالد ماموں کے سر کی ہڈی کے ساتھ ساتھ ہی ریڑھ کی ہڈی بھی ٹوٹ چکی تھی اور جامن کا دوست پیڑ اب قاتل پیڑبن چکا تھا. اگر نانا ابو کو پتا ہوتا کہ چاو سے لگایا جانے والا جامن کا پیڑ ایک دن ان کے لاڈلے اور اکلوتے بیٹے کی جان لے لے گا تو کیا بھلا وہ اس جامن کے پیڑ کو اپنے آنگن میں اگاتے؟؟؟ ؟
اور وہ نہر جو ہمارے گاوں کو جاتی تھی اسے بھی سب خونی نہر کہتے تھے کیونکہ اس میں گر کے جان بحق ہونے والوں کی تعداد بہت زیادہ تھی، نہر کسی نہ کسی کو اپنی جانب کھینچ ہی لیتی تھی، لوگوں کے جانی نقصان اتنے زیادہ تھے کہ گردونواح کا شاید ہی کوی ایسا گھر تھا جو اس خونی نہر کے عتاب کاشکار نہ ہوا ہو. اللہ جانے نہر کس انتقام کی آگ کو تھنڈا کرنے کے لیے اتنی انسانی جانوں کو نگلے چلی جاتی تھی اور اس کا انتقام پورا نہ ہوتا تھا. مقامی لوگ اس نہر کے پاس سے گزرنے سے حتی الامکان گریز کرتے تھے، ایک روز دادی فوت ہویں تو چچا کی فیملی کو ایمرجینسی میں اسی قاتل نہر پر سے گزرنا پڑا پوری گاڑی نہر میں جا گری صرف ڈرائیور ہی جان بچا پایا تھا، اکے بھای کی تو لاش بھی کءی ماہ بعد بڑی تلاش بسیار کے بعد ملی تھی.
یہ آسمانوں میں اڑنے والے جہاز اور سمندروں میں اترنے والے ٹایٹینک بھی جب حادثات کا شکار ہوتے ہیں سینکڑوں احتیاطی تدابیرِ کا ستیاناس کرتے ہوے تو سمجھ جانا چاہیے کہ زندگی اور موت اسی مالک کے ہاتھ میں ہے.
زندگی موت کی محافظ ہے، اور اچھی اور بری تقدیر اس مالک کے ہاتھوں میں ہے. تو مولا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قاتل جامن کے پیڑ، خونی نہر اور ہارے ہوئے مقدر کے عذاب سے بچاے.
آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم گوندل لاہور
punnam.naureenl@icloud.com
Leave a Reply