نظم:-
اس دبی سے اِک چیخ میں
بہت سی سِسکیاں باقی تھیں
جو بہت کچھ کہنا چاہتی تھیں
لیکن اُس اِک حیوان نے
اُس کی اِس ہوس نے
وہ ساری سِسکیاں دَبا دیں
اُس اِک واقعے نے
میری عُمر بڑھا دی
میرا بچپن چھین لیا، اور
میرا لڑکپن گنوا دیا
ابھی تو بہت کچھ سہنا باقی ہے
کیونکہ سہنے کو اِک عمر باقی ہے
یہ تماشہ جو کہ تاحیات ہے
یہ اذیت جو برسوں تک میرے ساتھ ہے
ہم مستورات کو کہاں اس سے نجات ہے
ہم مستورات کو کہاں اس سے نجات ہے
Leave a Reply