تازہ ترین / Latest
  Monday, October 21st 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

عنوان: کومل

Articles , / Tuesday, May 7th, 2024

افسانہ نگار :سیدہ نزہت ایوب
فرام اسلام آباد
صنف :افسانہ

“وہ بہت عجیب تھی”
بچپن سے ہی اٌسے تتلیوں کے پیچھے بھاگنا پسند تھا۔ وہ تتلیوں کو پکڑنے اٌن کے پیچھے یوں بھاگتی جیسے وہ اور تتلیاں پکڑا پکڑائی کا کوئی کھیل کھیل رہی ہوں۔
اس کے گھر کے قریب ہی سر سبز کھیتوں کا وسیع سلسلہ تھا جہاں گرمیوں میں گندم کی اور سردیوں میں سرسوں اور گنے کی فصلوں کا راج ہوتا۔
اسے گرمیاں عزیز تھیں کہ گرمیوں میں تیز ہواؤں آندھیوں کا موسم آتا۔ پھر ساونوں کی موسلادار بارشیں بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سردیاں تو بہت ہی پیاری لگا کرتیں جہاں گنے کی فصل میٹھی خوشبوؤں کا جادو جگاتی تو سرسوں کے کھیتوں پر جیسے ہی سرسوں کے پھولوں پر جوبن آتا سبک رو پون جلدی سے کوہ قاف کی پریوں کو سندیس دے آتی اور وہ تتلیوں کا روپ دھارے غول کے غول سارا سارا دن پھولوں کے اوپر منڈلاتے گزار دیتیں۔
پتہ نہیں کیوں پر اٌسے لگتا بادل ،ہوائیں، آسمان ،تارے، چھوٹے بڑے پودے ،پتے ،شاخیں، پرندے سبھی اس کے دل کی باتیں سنتے ہیں ۔۔۔۔
اٌسے لگتا سبھی اس کی باتوں کا جواب دیتے ہیں ۔
موسموں میں گم سم سی رہنے والی کومل اپنی ہی ذات میں مگن رہتی۔
اٌسے تنہائی سے شدید محبت تھی ۔
وہ چھ بہن بھائی تھے وہ سب سے چھوٹے نمبر پر تھی ۔
نہایت بچپنے میں بہنیں پیا گھر سدھار گئیں۔ بھائی سکول کے بعد زیادہ تر گھر سے باہر ہی پائے جاتے۔
بابا گھر کے واحد کفیل تھے ۔
وہ دو سال کی تھی جب بابا روزگار کے سلسلے میں لندن چلے گئے۔
بہنوں کی شادیوں کے بعد والدہ بیمار ہوئیں بابا نے ان کو علاج کے سلسلے میں لندن بلوا لیا ۔
اور بہنیں سسرال میں مصروف۔۔۔
بہنیں کبھی کبھار گھر کا چکر لگا لیتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ہاں البتہ ایک چچا کے گھر کی دیوار ساتھ لگتی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔دیوار بھی چھوٹی تھی۔۔۔ چچا کی ملازمت بیرونِ شہر تھی چچا مہینے بعد گھر آتے ۔۔۔البتہ چچی ماں دیوار پر سے گھر کی نگرانی کر لیتیں۔۔۔۔۔۔۔۔سکول کے بعد کومل کا زیادہ تر وقت تنہا گزرتا ۔۔۔۔یوں وہ تنہائی کی عادی ہوتی چلی گئی ۔
اس کی کوئی سہیلی نہ تھی اپنی ہم جماعتوں کے ساتھ محبت سے پیش آتی سبھی سے مسکرا کر ملتی ۔
فطرت کی قربت میں پلنے والی نفرتوں سے بہت دور تھی ۔
حسد کرنا، جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا _لڑائی وغیرہ وغیرہ کے نصاب اس نے پڑھے ہی نہ تھے ۔
وقت کا بے لگام گھوڑا سرپٹ دوڑتا ہی جا رہا تھا ۔
وہ نہم جماعت کی اب طالبہ تھی اس کے بابا جان واپس آ چکے تھے ۔
وہ محسوس کرتی بابا اس کے ہر کام کو سراہتے ہیں۔
اس نے میٹرک پاس کر لیا ۔
وہ آگے پڑھنا چاہتی تھی ۔
مگر گھر والے اسکی شادی کرنا چاہتے تھے ۔
اسے شادی نہیں بلکہ آگے پڑھنا ہے اس کی لاکھ ضد کے باوجود بابا نے اس کی وٹے سٹے پر گاؤں ہی میں اپنے بڑے بھائی کے گھر شادی طے کر دی ۔
گھر میں سب سے چھوٹی ہونے کی وجہ سے اس نے ہر ایک کے آگے سر جھکانا ہی سیکھا تھا ۔
وہ سمجھتی تھی کہ اس پر فرض ہے سبھی کے حکم کی تعمیل کرنا تایازاد پرائمری پاس تھا ۔
اسے کوئی اعتراض نہ تھا کہ اس کا کزن پرائمری پاس ہے بس اس کی خواہش تھی کہ وہ شادی سے پہلے مزید تعلیم حاصل کرے۔
جسے اس کے بابا نے یہ کہہ کر رد کر دیا کہ شادی کے بعد پڑھ لینا۔
یہ اس کے بڑوں کا فیصلہ تھا جس کے آگے اس نے سر تسلیم خم کر لیا ۔
رخصت کرتے وقت بابا جان نے بولا تھا کہ پتر تایا کا گھر بھی باپ کا گھر ہوتا ہے ۔
باپ ہونے کے ناطے تجھے حکم دیتا ہوں کہ کبھی بھی اس گھر میں کسی کو بھی تجھ سے کوئی شکایت نہ ہو۔۔۔۔۔۔۔
اور وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
اس نے تو کبھی نا کرنا سکھاہی نہیں تھا ۔
تصور میں بھی اپنے سے بڑے کی بے ادبی کرنا گناہ سمجھتی ۔
اس کے بڑوں نے اٹھارہ سال کی عمر میں ہی اس پر وٹے سٹے کا بوجھ لاد کر نہایت سختی سے سسرال میں ہر اک کی تابعداری کرنے کی نصیحت اس کے پلو سے باندھ کر رخصت کردیا ۔
کومل سی ادائیں رکھنے والی کومل ،دلہن بنی سرخ جوڑے میں یا قوت و مرجان لگ رہی تھی ۔
بڑی بہن نے نظر اٌتارتے ہوئے کہا کہ ماشاءاللہ آج کومل کو نظر بھر کر دیکھنا محال ہوا جا رہا ہے۔
آنے والے وقت سے بے خبر سبھی بڑوں کو خوش دیکھ کر وہ بھی بچوں کی طرح بہل گئی تھی ۔
بابا نے ایک امید دلائی تھی کہ وہ شادی کے بعد اپنی پڑھائی کو مکمل کر سکتی ہے ۔
اس نے دل میں ٹھان لیا تھا جیسے ہی حالات سازگار ہوئے وہ اپنی پڑھائی پوری کر ے گی ۔
اپنی تمام تر محبتوں کا مرکز اپنے شوہر کو مانتے ہوئے اپنی مرضیوں کو اس کی دسترس میں بخوشی دے چکی تھی ۔
اپنے تایا کے گھر آج اس کی پہلی رات تھی۔
وہ اب اس گھر کی فرد تھی۔ یہیں جینا مرنا تھا۔ راہیں پرخار ہوں یا پھولوں کی سیج ۔کڑی مسافتیں مقدر بنیں یا سہل ہو ڈگر ۔
شوہر کی ہر جائز و ناجائز بات کو ماننا اس کا مذہبی فریضہ ہوگا جو اسے سکھایا پڑھایا گیا وہ یہی تھا ۔۔۔۔۔۔۔
اس کا دل زور سے دھڑکا جب اس کا شوہر اس کے مقابل آکر بیٹھا ۔
ویسے بھی اٌس کا شوہر اٌس سے پندرہ سال عمر میں بڑا تھا ۔
اور بڑوں سے وہ یوں ڈرتی جیسے بڑے نہ ہوئے موت کا فرشتہ ہو ۔
شوہر جب بولا تو اس پر بجلیاں سی گر گئیں ۔
وہ یہ شادی نہیں کرنا چاہتا تھا اٌسے اپنی ان پڑھ اور چالیس سالہ بہن کی خاطر قربانی دینا پڑی ۔
جس کا کہیں بھی رشتہ نہیں ہو رہا تھا ۔
اس کے بقول چچا نے ان کی دولت کی لالچ میں اپنے پڑھے لکھے بیٹے سے شادی کی حامی بھری مگر بدلے میں اپنی بیٹی کا رشتہ دیا۔
جسے نہ چاہتے ہوئے بھی تایاابا اور تائی ماں اور ان کی باقی اولاد کو قبول کرنا پڑا ۔
پہلی ہی رات اس کے شوہر نے اس پر آنے والے بہت سارے دنوں کو واضح کر دیا ۔
رات گزر گئی ۔
فجر کی نماز کے وقت اس نے ایک فیصلہ کیا ۔
ایثار و قربانی کا ،بے لوث پیارو وفا کا ۔
اس نے سوچا کہ وہ اتنی محبت اور قربانی دے گی کہ ایک دن اس کی وفا، تابعداری اور محبت رنگ لے آئے گی۔
اور وہ شوہر سمیت سارے گھر والوں کے دل میں جگہ بنا لے گی ۔
اس نے یوں ہر بات کو بھلا دیا جیسے رات گئی بات گئی ۔
تین نومبر اس کی زندگی کی ایک نئی صبح ہر طرف اجالے بھر رہی تھی ۔
اپنی نئی صبح میں پیار و محبت میں گھوندی کومل، کومل من موہنی سی مسکان لبوں پر سجائے شوہر کا رویہ بھلائے سبھی سے مل رہی تھی ۔
وہ یاد نہیں رکھنا چاہتی تھی کہ اس کے شوہر نے اسے کیا کہا وہ اپنی نظر اپنے فرائض پر گاڑھے تھی ۔
وہ نہیں جانتی تھی کہ دین کا تقاضہ کیا ہے۔
قرآن کے حکم کیا ہیں ۔
وہ بس یہ جانتی تھی کہ اٌسے دونوں گھروں کے بڑوں کے سامنے سر کیا نظر بھی نہیں اٌٹھانی ۔
شکوہ و شکایت کیا۔۔۔۔۔۔ کسی کے سامنے زبان بھی نہیں ہلانی۔۔۔۔۔۔۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International