rki.news
قسط نمبر 32 میں ہم نے ماہِ رمضان کی سحری کا احوال بیان کیا تھا اب کچھ عید کی تیاریوں اور عید کے دن کی “برکتوں”کا بھی ذکرِ خیر ہوجائے۔
بچپن میں ہر شے انوکھی اور دلچسپ محسوس ہوتی تھی۔ اسی طرح ہر تہوار کی خوشی بھی الگ ہی ہوتی تھی۔
رمضان میں سحری کرنے سے زیادہ آدھی رات کو اٹھ کر بہن بھایوں کے ساتھ دھماچوکڑی مچانا زیادہ اچھا لگتا تھا۔ افطار میں تو مزے مزے کی چٹ پٹی چیزیں کھانے کو ملتیں۔ پکوڑے، چنا چاٹ، دھی بڑے، پتہ نہیں یہ دھی بڑے کیوں کہلاتے شاید دھی پھلکیوں کی نسبت سے۔ ایک اور ڈش جس سے مجھے ہمیشہ چِڑ رہی وہ تھی “لونگ چِڑےِ”۔ اس کا نام لیتے ہی چھوٹی سی نمائشی کالی ڈاڑھی کے ساتھ “چِڑے” صاحب کی شکل نظروں کے سامنے آجاتی۔ جس کے نام ہی سے چِڑ ہو اس کے کھانے میں خاک مزہ۔
آخری روزے تو ہم گن گن کر پورے کرتے۔
یہی انتظار رہتا کہ کب رمضان ختم ہو اور کب عید آئے۔ اماں کو ہمیشہ رمضان کا مہینہ جلدی گزرجانے کا افسوس رہتا۔
ابا شروع روزوں میں ہی ہم سب بھایوں کے عید کے جوڑوں کے لیے کرتے پاجاموں کا کپڑا لے آتے۔ سفید لٹھے کے پاجامے اور نیلی پاپلین کی قیصیں اماں سینے بیٹھ جاتیں۔ بہنوں کے جوڑوں بھی اماں ہی سیتیں۔ بمشکل چاند رات تک یہ کام تمام ہوتا۔
چند روز پہلے ابا سب کو کلو نائی کے پاس لیجاتے۔ محلے میں ایک وہی تھا جو “انگریزی کٹ” بال کاٹنا جانتا تھا۔ ہمارے بال گھنے اور گھنگریالے ہوا کرتے تھے۔ ایک بار ہم اسی کلو نائی کی دکان پر اپنی باری کے انتظار میں خالی کرسی پر بیٹھے کنگھا کر رہے تھے کہ بالوں میں الجھ کر کنگھا ٹوٹ گیا۔ ہم نے جیب سے بال کٹوانے کے جو پیسے اماں نے دیے تھے وہ ٹوٹے کنگھے کے پاس رکھے اور خاموشی سے دکان سے نکل آئے۔
ابا عید سے چند روز پہلے بازار لے جاتے۔ جوتے اور ٹوپی دلانے۔ عید پر “لیاقت کیپ” سر پر منڈھی جاتی۔ اباہمیشہ جناح کیپ پہنتے تھے۔ جوتے بھی باٹا کے دلائے جاتے۔ نجانے ان کی قیمت میں ننانوے ہیسے کا دم چھلا کیوں لگا ہوتا تھا۔ پچاس روپے ننانوے پیسے (50.99) ، سو روہے ننانوے پیسے(100.99).
“نئے جوتے کپڑے کیپ” ہم اپنے سرہانے رکھتے۔ رات کو جب آنکھ کھلتی چھوکر دیکھتے۔ نئے جوتوں کی چمک دمک کے ساتھ چمڑے کی مہک بہت اچھی لگتی تھی۔
چاند رات کو سب چھت پر چڑھ جاتے، چاند نظر آجاتا تو بار بار آپس میں گلے ملتے۔ اعلانات شروع ہوجاتے۔ ریاست خیرہور جب تک رہی توپ سے گولے بھی داغے جاتے۔ ریاست کے دارالخلافہ کوٹ ڈیجی کا قلعہ ایک بار دیکھنے گئے تھے۔ اندر چھوٹی بڑی توپیں اور مورچوں میں لوہے اور پتھر کے گولے بھرے ہوئے تھے۔
کبھی کبھی چاند نظر آنے کا اعلان رات گئے ہوتا۔ اس سال دو عیدیں ہوتیں۔ کچھ لوگ چاند دیکھے جانے کی اطلاع پر یقین نہیں کرتے۔ اس اعلان کو حکومت کی مصلحت قرار دیتے۔
عید کی پہلی دوسری نماز کے اوقات کا اعلان مسجد سے ہونے لگتا۔ اماں باورچی خانے کا رخ کرتیں۔ بڑی آپا چھوٹی بہن کے مہندی لگانے بیٹھ جاتیں۔
عید کے دن کی صبح بہت جلدی ہوجاتی۔ نہادھوکر ابا کے ساتھ نماز پڑھنے جاتے۔ مسجد میں تالہ لگے لکڑی کی دو صندوقچیاں رکھی ہوتیں فطرے کے لیے۔ ابا نے بتایا فطرہ ایک طرح کا کفارہ اور صدقہ ہے۔ سید اور غیر سید کے لیے اس کا نکالنا فرض ہے۔ ابا نے مزید بتایا کہ سید کا فطرہ صرف سید ہی کو جاتا ہے۔
نماز سے واپسی پر سوئیوں اور دودھ چھواروں کا ناشتے کا الگ ہی مزہ ہوتا۔
ہماری اکلوتی پھپھی نے ابا کی پرورش کی تھی وہ عید پر ہم سب کو اکنّی دیتیں اور ابا کو چونی، ابا یہ چار آنے پاکر خوشی سے پھولے نہیں سماتے جیسے قارون کا خزانہ مل گیا۔
ابا ہمیں چاندی کا روپیہ دیتے۔ چمکدار چاندی کے روپئے بڑی کشش رکھتے تھے۔
ہم تو اپنے پیسے پاجامے کے نیفے میں محفوظ کرلیتے تھے۔ کیا اچھی تجوری تھی۔
ان اوقات میں جو بھی عزیز رشتہ دار ابا اماں کے پاس عید کے سلام کو آتا بہانے بہانے سے ان کے پاس آکر سلام کرتے۔ اماں ابا لاکھ آنکھیں دکھاتے مگر اس موقع پر ہم نہایت تمیز دار بچے بن کر آداب بجا لاتے رہتے جب تک عیدی نہ مل جاتی۔
گھر سے باہر گلی میں چیزیں بیچنے والے آواز لگانے لگتے ۔ آس پڑوس کے بچے بھی جمع ہوجاتے۔ اپنی اپنی عیدی ایک دوسرے کو بڑھ چڑھ کر بتاتے۔ رنگین غبارےِ، آئس کریم کے انڈے، کھوئے والی قلفی اور گرمی کا توڑ، ٹھنڈا ٹھار گولہ گنڈا۔۔۔ عید کے تینوں دن یہی شغل رہتا جب تک عیدی خرچ نہ کرلیتے۔ اس کے بعد ٹھنڈا ٹھار گولہ گنڈا اپنا اثر دکھاتا۔ ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ کڑوی کڑوی دوائیں حلق سے اتارنا پڑتیں لیکن عید کے ان تین دنوں کی شریں یادوں کے مقابلے میں یہ سودا برا نہیں تھا:
“کل تلک دل موہ لیتی تھی ہر اک شے کی کشش
عمر جوں جوں بڑھ چلی یہ خواب بھی جھوٹا ہوا”
(ف ن خ) (جاری ہے)
Leave a Reply