rki.news
مغلیہ سلطنت: ایک تحقیقی مطالعہ
تحریر:شازیہ عالم شازی
برصغیر کی تاریخ میں سلطنتِ مغلیہ (1526ء–1857ء) ایک عظیم سیاسی و تہذیبی دور کے طور پر سامنے آتی ہے۔ بعض ناقدین اس سلطنت کو صرف عیش و عشرت، محلات اور رقص و سرود تک محدود کر کے پیش کرتے ہیں اور یہاں تک کہ مغل بادشاہوں کو “تارکِ اسلام” قرار دیتے ہیں۔ تاہم، تاریخ کے مستند ماخذ ہمیں یہ بتاتے ہیں کہ مغل بادشاہ نہ صرف عسکری اور سیاسی لحاظ سے نمایاں تھے بلکہ ان کی مذہبی خدمات، مساجد و مدارس کی سرپرستی، اور اسلامی علوم کی ترویج بھی غیر معمولی اہمیت رکھتی ہیں۔
1. مغل بادشاہ اور مذہب
مغل بادشاہوں کا مذہب کے ساتھ تعلق متنوع رہا اگرچہ اکبر کے دور میں “دینِ الٰہی” جیسے تجربات سامنے آئے، لیکن یہ محدود اور وقتی رجحان تھا۔ اکبر کے بعد آنے والے شاہجہان اور اورنگزیب نے اسلام کی مضبوطی کے لیے بڑے اقدامات کیے۔
بابر (1526–1530ء): بابر نے اپنی سوانح تزکِ بابری میں ذکر کیا ہے کہ اس نے کابل اور قندھار میں مساجد تعمیر کروائیں۔ ایودھیا میں بابری مسجد (1528ء) اسی کا کارنامہ ہے۔
اکبر (1556–1605ء): اگرچہ اس پر مذہبی تجربات کا الزام ہے، مگر اکبر نے جامع مسجد فتح پور سیکری تعمیر کروائی اور علما و مدارس کو وظائف دیے۔
شاہجہان (1628–1658ء): شاہجہان نے عظیم مساجد تعمیر کروا کر اسلام کی اجتماعی اور تہذیبی طاقت کو نمایاں کیا۔
اورنگزیب (1658–1707ء): اورنگزیب کا شمار برصغیر کے سب سے زیادہ دیندار سلاطین میں ہوتا ہے۔ اس نے اپنی عیش و عشرت ترک کر کے شریعت کے نفاذ پر زور دیا، ہزاروں مساجد و مدارس کی سرپرستی کی اور “فتویٰ عالمگیری” مرتب کروایا۔
2. نمایاں مساجد
مغل دور میں تعمیر ہونے والی مساجد آج بھی اسلامی فنِ تعمیر کے شاہکار ہیں:
بابری مسجد (1528ء، بابر) ایودھیا۔
جامع مسجد فتح پور سیکری(1571ء، اکبر) ہند و ایرانی طرزِ تعمیر کا حسین امتزاج۔
جامع مسجد دہلی (1656ء، شاہجہان)برصغیر کی سب سے عظیم الشان مسجد، جو ہزاروں نمازیوں کی گنجائش رکھتی ہے۔
موتی مسجد آگرہ و لاہور (1640ء–1645ء، شاہجہان)سفید سنگِ مرمر کی حسین یادگاریں۔
بادشاہی مسجد لاہور (1673ء، اورنگزیب) جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجد، اسلامی شان و شوکت کی علامت۔
موتی مسجد دہلی قلعہ (1662ء، اورنگزیب) شاہی خاندان کے لیے خصوصی مسجد۔
یہ مساجد صرف عبادت گاہ نہیں بلکہ سماجی و علمی مراکز تھیں، جہاں سے دین اور علم کی روشنی پھیلی۔
3. مدارس اور علمی خدمات
مغل دور میں مدارس کی سرپرستی ایک مسلسل روایت رہی۔
بادشاہوں اور امراء نے علما کے لیے اوقاف اور جاگیریں مقرر کیں۔
اورنگزیب نے فتویٰ عالمگیری (فقہِ اسلامی کی جامع دستاویز) مرتب کروائی، جس میں ہزاروں فقہی مسائل یکجا کیے گئے۔
دہلی، آگرہ، لکھنؤ، لاہور اور حیدرآباد دکن میں مدارسِ دینیہ کے مراکز قائم ہوئے، جہاں قرآن، حدیث، فقہ اور تصوف کی تعلیم دی جاتی تھی۔
شاہی سرپرستی کے باعث علمی و دینی روایتیں مضبوط ہوئیں، جو بعد میں درسِ نظامی اور دیگر نصاب کی بنیاد بنیں۔
4۔اعتراضات اور حقیقت
یہ درست ہے کہ بعض بادشاہ، مثلاً جہانگیر، شراب نوشی اور عیش و عشرت میں مشغول تھے، اور دربار میں رقص و موسیقی کا رواج بھی پایا جاتا تھا۔ لیکن ان انفرادی مثالوں کی بنیاد پر پورے مغلیہ دور کو “عیاشی” اور “تارکِ اسلام” کہنا انصاف نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ:
اسلام کے بڑے مراکز، مساجد اور مدارس مغلیہ دور میں ہی پروان چڑھے۔
فقہ و شریعت کو منظم اور محفوظ شکل میں مرتب کیا گیا۔
اسلامی فنِ تعمیر نے اپنی معراج اسی دور میں پائی،مغلیہ سلطنت محض تاج محل اور محلات کی تعمیر کا دور نہیں بلکہ یہ برصغیر میں اسلام کی جڑوں کو مضبوط کرنے کا عہد بھی ہے۔ جامع مسجد دہلی، بادشاہی مسجد لاہور اور فتویٰ عالمگیری اس بات کے ناقابلِ تردید ثبوت ہیں کہ مغل بادشاہوں نے دین کی خدمت کی اور برصغیر کی اسلامی تہذیب کو دوام بخشا۔
اس لیے مغلیہ سلطنت کو صرف عیاشی کے آئینے میں دیکھنا تاریخی بددیانتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ دور اسلامی فنِ تعمیر، فقہ و تعلیم اور سماجی تنظیم کے اعتبار سے برصغیر کی تاریخ کا سنہری باب ہے۔
Leave a Reply