وہ راستے میں یقیناً کہیں دغا دے گا
کسی کے حسن میں کھو کر تمہیں بھلا دے گا
فساد ہوگا پتہ تھا مگر نہ تھا معلوم
مرا پڑوسی ہی گھر کو مرے جلا دے گا
تو ایک قطرہ بھی آنسو کا گر گرا دے گا
مرا ضمیر مسلسل مجھے سزا دے گا
نقیب بزم کی باتوں کا کیا بھروسہ ہے
کبھی بڑھاۓ گا قد کو کبھی گھٹا دے گا
Leave a Reply