چاند کو ہم نے دیکھا اندر پانی میں
دیکھ رہا تھا وہ بھی ہنس کر پانی میں
چیخ اٹھا ہے کوئی اندر پانی میں
جا کے گرا ہے کس کا خنجر پانی میں
کیا میں بتاؤں کیا تھا منظر پانی میں
ڈوب رہا تھا کوئی ساگر پانی میں
ساتھ ہمیں بھی ڈوبی لے کر پانی میں
دیکھی جو ہم نے قسمت بو کر پانی میں
چور گھمنڈ ہو جائے گا سورج تیرا
اترے گا تو بھی جس دن اندر پانی میں
اس کو جدا نا کر پایا ہے کوئی بھی
پھینک کے دیکھے ہم نے پتھر پانی میں
نیند نہیں آتی ہے جن کو بستر پر
دیکھ رہے ہیں وہ بھی سو کر پانی میں
لوگ یہاں پر اتنے احمق ہیں عاطفؔ
بیر مگر سے کرتے رہ کر پانی میں
ارشاد عاطفؔ احمدآباد انڈیا
Leave a Reply