مجھے خلوت سے اُلفت ہے مجھے تنہا ہی رہنے دو
سہارا دو نہ چھاؤں کا غموں کی دھوپ سہنے دو
دیا ایسا جلاؤں کیوں جو میرا گھر جلا ڈالے
مبارک روشنی تم کو مجھے ظلمت میں رہنے دو
شکایت کچھ نہیں تم سے مقدر تھا یہی میرا
مرے اشکوں پہ مت جاؤ یہ بہتے ہیں تو بہنے دو
زمانے کی روش ہے یہ کہ اچھوں کو برا کہنا
مری اچھائیوں کو جو بُرا کہتے ہیں کہنے دو
مجھے بس چاہیے ہم دم تمھارے پیار کا زیور
میں یہ کہتی نہیں تم سے مجھے سونے کے گہنے دو
مناؤ ں سوگ کیا اُسکا فقط دل ہی تو ٹوٹا ہے
محض دنیا ہی اُجڑی ہے ارے چھوڑو بھی رہنے دو
از قلم۔۔
ڈاکڑ شمائلہ آفریں نظر
Leave a Reply