شاعرہ ماریہ اعجاز اٹک
ہمیں بے حد ستاتی ہیں ہماری ہجر کی راتیں
ہمیں تنہا رلاتی ہیں ہماری ہجر کی راتیں
سبھی آرام سے سوتے ہیں اپنے اپنے بستر پر
ہمیں شب بھر جگاتی ہیں ہماری ہجر کی راتیں
دلاتی یاد ہیں ہم کو وہ ماضی کے حسیں لمحے
ہمیں غم سے لڑاتی ہیں ہماری ہجر کی راتیں
اگر مدہوشی چھا جائے کھلی آنکھوں سے یہ ہم کو
کئی سپنے دکھاتی ہیں ہماری ہجر کی راتیں
کبھی شب کو ہو دستک ہم سمجھتے ہیں تم آئے ہو
ہمیں پاگل بناتی ہیں ہماری ہجر کی راتیں
اسے کوئی یہ ماریہ کہے ملنے چلے آؤ
وگرنہ یہ چِڑاتی ہیں ہماری ہجر کی راتیں
Leave a Reply