وفا کا ہے ماتم یہاں سے وہاں تک
وہی دکھ وہی غم یہاں سے وہاں تک
وہاں سے یہاں تک ہے جو بے قراری
وہی کچھ ہے عالم یہاں سے وہاں تک
گھُٹن گھَٹ رہی ہے نہ بے تابیِ دل
سو یکساں ہے موسم یہاں سے وہاں تک
اُدھر سے بھی سلجھانے کی فکر ہو کچھ
ہے الجھا یہ ریشم یہاں سے وہاں تک
بُجھیں وصل کی شمعِ امّید ساری
اندھیرا ہے پیہم یہاں سے وہاں تک
غمِ ہجر میں منتشر منتشر ہیں
کہیں تم کہیں ہم یہاں سے وہاں تک
مرے دل کا ہے وہم یا تیری خوشبو
ہواؤں میں ہر دم یہاں سے وہاں تک
جنوں میں اُسے جانے کیا لکھ دیا ہے
ہیں سب مجھ سے برہم یہاں سے وہاں تک
ملی گر خبر اُن کے آنے کی راغبؔ
تو بِچھ جائیں گے ہم یہاں سے وہاں تک
افتخار راغبؔ
دوحہ، قطر
کتاب: لفظوں میں احساس
Leave a Reply