اُس نے پلٹ کے موڑ پہ دیکھا تو رو پڑے
آنچل جو ، وحشتوں نے اُڑایا تو رو پڑے
عاری لگیں کلائیاں ، چوڑی کے شور سے
میلے میں پھر کبھی وہ نہ آیا تو رو پڑے
امید کی کرن سے تھے ہم خوش گماں ضرور
بے بس تھا وہ ، جو ٹوٹ کے رویا تو رو پڑے
جھونکے ہوا کے یاد دلاتے کسی کا لمس
جوڑے میں پھر جو پھول نہ پایا ، تو رو پڑے
ہنستے تھے تتلیوں کو اڑا کر جو پھول سے
جب پنکھڑی پہ رنگ نہ اترا تو رو پڑے
ماں باپ خوش تھے بیٹے کو پردیس بھیج کر
اک روز گِر گیا جو نِوالہ ، تو رو پڑے
تمثیلہ ، اُس کی یاد تو پہلے تھی اجنبی
پھر آ گیا خیال دوبارہ ، تو رو پڑے
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply