غم چُھپایا نہیں گیا ہم سے
تُو بھلایا نہیں گیا ہم سے
تیری فُرقت میں رات دِن روئے
مسکرایا نہیں گیا ہم سے
جب بھی تیری طرف دھیان گیا
پِھر ہٹایا نہیں گیا ہم سے
جب سے تُو چھوڑ کر گیا اِس کو
گھر سجایا نہیں گیا ہم سے
آزمائش تھی لازمی لیکن
آزمایا نہیں گیا ہم سے
تیرا پیغام بھی مِلا ہم کو
پھر بھی آیا نہیں گیا ہم سے
دیکھ کر ہنس دیے تجھے ، تیرا
دِل دُکھایا نہیں گیا ہم سے
تیری آنکھوں نے اِس قدر لُوٹا
کچھ بچایا نہیں گیا ہم سے
بعد تیرے کِسی سے پِھر ذُلفی
دِل لگایا نہیں گیا ہم سے
شاعر ذوالفقار علی ذُلفی
( پنڈ دادنخان جہلم )
Leave a Reply