rki.news
اپنا ایمان بھی بچانا تھا
اور پھر دل بھی آزمانا تھا
تجھ سے کرنے تھے کچھ گلے شکوے
اور کیوں میکدے کو جانا تھا
وہ جو کہتا ہے سب کی سنتا ہوں
بس اسی کو مجھے سنانا تھا
جس جگہ سب گیان والے ہوں
اس جگہ میں نے کیا دکھانا تھا
دوست جتنے ہیں دور رہتے ہیں
کیا جگر مجھ کو آزمانا تھا
یہ سفر کی تھکاوٹیں جاناں
دل تو اپنا بھی عاشقانہ تھا
حسن اک تہہ بہ تہہ حقیقت ہے
ہم نے ہر تہہ میں بہہ ہی جانا تھا
آدمی کی نمود کا مقصد
خاک اڑانا تھا خاک پانا تھا
آنسووں کے نگار خانے میں
میری مژگاں کا آستانہ تھا
اس جبلت سے لڑ نہ پائے ہم
گو کف پائے یار پانا تھا
بندگی مذہبوں کی چادر تھی
بندگی کا بھی کیا ٹھکانہ تھا
ہم نے دیکھا بلال کو اک دن
خود سے رنجیدہ اک فسانہ تھا
ڈاکٹر بلال قریشی
(دبئی)
Leave a Reply