rki.news
حکمت و علم کا تالاب نہیں تھا شاید
باغ دل اس لئے شاداب نہیں تھا شاید
ماں صفا مروہ پہ بے چین تھی پانی کے لئے
خشک صحرا تھا کہیں آب نہیں تھا شاید
بلبلیں نغمہ سرا تھیں تو چمن کیوں تھا اُداس
خُوبصورت کوئی سر خاب نہیں تھا شاید
گھپ اندھیرا تھا ستاروں کے جلو میں لیکن
چاندنی کے لئے مہتاب نہیں تھا شاید
یاس کے اُس گھنے جنگل میں بھٹکتا رہا وہ
آس کا کوئی کھلا باب نہیں تھا شاید
ہم نے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد تو بنا لی یوں ہی
ذہن میں نقشہء محراب نہیں تھا شاید
بچ کے لہروں سے کنارے پہ وہ آیا کیسے
ہاں سمندر میں ہی گرداب نہیں تھا شاید
اُس نے سپنا تو سجایا تھا مگر ٹوٹ گیا
اُس کی قِسمت میں حسیں خواب نہیں تھا شاید
کچھ دنوں سے وہ پریشان بہت رہتا ہے
اس قدر پہلے تو بے تاب نہیں تھا شاید
ہاتھ خالی ہی وہ لوٹ آیا سمندر سے جناب
کوئی موتی ہی تہہ آب نہیں تھا شاید
تیرگی جہل کی پھیلی تھی بہر سو منصور
ایک بھی علم کا شب تاب نہیں تھا شاید
منصور اعظمی دوحہ قطر۔۔
Leave a Reply