rki.news
لب پہ الفاظ صداقت کے شکم پر پتھر
ایسے انساں پہ چلا پھینکنے لشکر پتھر
خیر ہو امن کی یہ لوگ کہاں جاتے ہیں
کوئی ترشول اٹھائے کوئی خنجر پتھر
سب کے سب اُس کے پڑوسی تھے مگر قتل کے دن
کوئی وحشی نظر آیا کوئی پتھر پتھر
وہ نہ فرہاد نہ رانجھا نہ کوئی مجنوں تھا
پھر بھی پھینکے گئے اُس شخص پہ اکثر پتھر
صاحبِ فیل بھی نابود ہوا لشکر بھی
اِتنے برسائے ابابیل نے جم کر پتھر
سر سے شائد کہ اُتر جائے غریبی کا پہاڑ
ڈھوتا رہتا ہوں یہی سوچ کے دن بھر پتھر
اس کا سر خود بھی نہ محفوظ رہے گا منصور
سوچتا رہ گیا وہ ہاتھ میں لیکر پتھر
منصور اعظمی دوحہ قطر
Leave a Reply