rki.news
گو ، اس کے لوٹ کے آنے کا انتظار نہیں
میں کیا کروں ، مرا سوچوں پہ اختیار نہیں
کوئی دوا ہے نہ تعویذ کار گر اس میں
اُتر نہ پائے گا یہ عشق ہے ، بخار نہیں
نظر کے ملتے ہی ، ہاتھوں سے دل نکلتے ہیں
یہ لین دین ہے آپس کا ، کاروبار نہیں
نہ دسترس میں ہے تعبیر ، اور نہ نیند پہ بس
وہ خواب زار بھی پہلا سا خواب زار نہیں
قدم قدم پہ مری تاک میں ہیں اندیشے
اور اب تو ماں کی دعاؤں کا بھی حصار نہیں
بس ایک شرط ہے اتنی ، مجھے خطاؤں پر
وہ سنگسار کرے ، جو گناہ گار نہیں
یہ چاہتوں کی ہے بازی یہاں پہ تمثیلہ!
کسی کی جیت نہیں ہے ، کسی کی ہار نہیں
تمثیلہ لطیف
Leave a Reply