rki.news
راجا ناصر محمود · قطر
خیال ہے کہ آپ سے اِک ملاقات ہو جائے
وسوسے ختم ہوں، کوئی نئی کرامات ہو جائے
دشت کی ویرانی میں پیدا اک نیا سماں ہو
سکوت ٹوٹے، طوفاں آئے، کُھل کر برسات ہو جائے
بس لوگ رہتے ہیں اس بستی میں، کوئی انسان نہیں
اِن کی چیرہ دستیوں پہ کوئی تو واردات ہو جائے
دل ہے بہت پُرامید کہ منزل اب دُور نہیں
رختِ سفر باندھ لیں شاید کب نجات ہو جائے
لوٹ آئیں گر وہ چارہ گر جو دور جا بسے ہیں
اِس عالمِ آہ و فغاں میں اب سلامات ہو جائے
ناصرؔ دنیا میں کوئی تو تیرا نام و نشاں رہے
کوئی کارِ خیر قبول ہو، شاد یہ کائنات ہو جائے
Leave a Reply