مجھے جب بھی وہ گلیاں اور وہ رستہ یاد آتا ہے
کوئی دھندلا سامنظر ہے جو اجلا یاد آتا ہے
قضائے دل پہ طاری ہے بہت ہی حبس کا موسم
تری قربت کی خوشبو کا وہ جھونکا یاد آتا ہے
کہاں تم تو جدائی کا وہ منظر بھول بیٹھے ہو
خلا میں دیکھ کر مجھ سے وہ بولا ۔ یاد آتا ہے
خزاں رت ہے مگر مجھ کو خیالوں کے تسلسل میں
محبت کے گلابوں کا وہ سپنا یاد آتا ہے
کسی کے دکھ بھرے لمحے میں جب کوئی بلکتا ہے
حقیقت میں اسے ہر زخم اپنا یاد آتا ہے
مسلسل ریت پر چلنا وفا کی ریت ٹھہری ہے
تری دہلیز تک پھیلا وہ صحرا یاد آتا ہے
وہ لمحہ جو گزرتے موسموں میں ساتھ ٹھہرا ہے
مجھے خود بھی نہیں معلوم کتنا یاد آتا ہے
کبھی جب ہجر کی آہٹ سی دل آنگن میں آتی ہے
بہت اپنائیت سے بس وہ اپنا یاد آتا ہے
ترا ہی عکس اترا ہے مری نظموں میں غزلوں میں
وہ لہجہ تیری چاہت کا وہ چہرہ یاد آتا ہے
ہمارا نام لکھا تھا کبھی جو ریت پر اس نے
کبھی جب یاد آئے تو وہ دریا یاد آتا ہے
مرے آنگن میں جب بھی شام کے سائے اترتے ہیں
مجھے شاہیں محبت کا ہی سایہ یاد آتا ہے
شاعرہ ڈاکٹر نجمہ شاہین کھوسہ
Leave a Reply