افتخار راغبؔ
دوحہ، قطر
تمھاری مہربانی کم نہیں ہے
مری آنکھوں میں پانی کم نہیں ہے
نہاں زخموں کی صورت کون دیکھے
عیاں ہے جو نشانی کم نہیں ہے
نہیں ممکن شمارِ زخمِ جذبات
تری ضد کی کہانی کم نہیں ہے
محبت میں ہوئے ہیں رائگاں ہم
ہماری رائگانی کم نہیں ہے
جہاں چاہے دکھا دے رقصِ آتش
تری شعلہ بیانی کم نہیں ہے
بیاں کرنے کو تیری بربریّت
ہماری بے زبانی کم نہیں ہے
دریچہ آس کا روشن ہے اب بھی
سو اب بھی خوش گمانی کم نہیں ہے
تخیّل میں رواں تیری محبت
غزل میں بھی روانی کم نہیں ہے
محبت کی فراوانی ہے راغبؔ
صداقت کی گرانی کم نہیں ہے
Leave a Reply