منزلوں کی آرزو میں ہمسفر بدلے گئے
زندگی کٹتی رہی اور گھر پہ گھر بدلے گئے
عمر بھر ہم بھی نہیں ٹک پائے ہیں اک بات پر
فیصلے اپنے بھی آخر عمر بھر بدلے گئے
یہ تو اچھا ہے کہ ہم برباد ہونے سے بچے
یہ تو اچھا ہے کہ چہرے وقت پر بدلے گئے
ان خیالوں کو بھی کچھ تبدیل کرلیں گے ضرور
قافیے اپنی غزل کے ہم سے گر بدلے گئے
دوستوں کو ہو گیا ہے کیا نہ جانے آج کل
اس قدر سوچا نہیں تھا جس قدر بدلے گئے
ہم نصیبِ دار پہ تمثیلہ جچتے تھے بہت
خال و خد لیکن ہمارے چاک پر بدلے گئے شاعره تمثیلہ لطیف
Leave a Reply