rki.news
منصور اعظمی
سنا تھا بھوک سے مجبور اور لاچار بکتے ہیں
یہ دولتمند آخر کیوں سر بازارِ بکتے ہیں
کسی کو بھوک پیسے کی کسی کو پیٹ کی ہے بھوک
کہیں زردار بکتے ہیں کہیں فنکار بکتے ہیں
ہو کیوں انصاف کی اُمید اب ایسی عدالت سے
جہاں پر منصف و حاکم سپہ سالار بکتے ہیں
وہ جو دولت کی خاطر بیچ دیتے ہیں ضمیر اپنا
ہمارے درمیاں کُچھ ایسے بھی غدّار بکتے ہیں
پلٹ کر دیکھئے تاریخ کے اوراق دنیا میں
سپہ سالار بکتے ہیں یہ ساہو کار بکتے ہیں
بہت مشکل پرکھنا ہے یہاں اب کون کیسا ہے
جہاں دولت چمکتی ہے وہیں کردار بكتے ہیں
یہ وہ بازار ہے کُچھ لوگ پیسے کے لئے منصور
جو بک جائیں اگر اک بار تو ہر بار بکتے ہیں
منصور اعظمی دوحہ قطر
Leave a Reply