rki.news
ہماری بات ذرا مان جاٶ ضد نہ کرو
پرانی جو بھی ہے نفرت بُھلاٶ ضد نہ کرو
ترس گئی ہیں نگاہیں تمہاری یاد میں یوں
کہاں ہو تم کسی رستے سے آٶ ضد نہ کرو
یہ نفرتوں کے پُجاری ہیں اُلفتوں کے عُدو
نہ دل کو اُن کے لئے تم جلاٶ ضد نہ کرو
نہ لو حساب پرانی رقابتوں کا کبھی
محبّتوں کے دیئوں کو جلاٶ ضد نہ کرو
وہ رونقیں کہاں، وہ رت جگے کہاں ہوۓ گُم
وہی حسین سماں پھرسے لاٶ ضد نہ کرو
وفا پہ عشق کی بنیاد تھی اگر چہ ثمر
مگر ہے ڈر نہ کہیں بھول جاٶ ضد نہ کرو
محبّتیں دِلوں کو جوڑ دیں کہیں بھی ثمر
ہنسا کے رُوٹھے دِلوں کو مناو ضد نہ کرو
ثمرین ندیم ثمر
Leave a Reply