اِدھر اچھا نہیں لگتا اُدھر اچھا نہیں لگتا
ہمیں خوابوں کا اب کوئی سفر اچھا نہیں لگتا
جو نفرت بانٹتے رہتے ہیں صبح و شام دنیا میں
محبت کا مری ان کو ہنر اچھا نہیں لگتا
کبھی کہتے ہیں اس کے بن رہا جاتا نہیں ہم سے
کبھی کہتے ہیں چاہت کا سفر اچھا نہیں لگتا
جہنم جیسا لگتا ہے اگر اس میں سکوں نا ہو
بنا ہو سونے چاندی سے بھی گھر اچھا نہیں لگتا
نصیحت یہ ہمیشہ ہی تجھے بس یاد رکھنی ہے
جو سڑ جاتا ہے بیٹا وہ ثمر اچھا نہیں لگتا
وہ جس کے سائے میں پل کر بڑے سب ہو گئے عاطفؔ
انہیں گھر میں وہ اب بوڑھا شجر اچھا نہیں لگتا
خدا کی ذات پر تم تو یقیں والے تھے اے عاطفؔ
تمہارے چہرے پر کوئی بھی ڈر اچھا نہیں لگتا
تو نا رکھو کوئی رشتہ بھی اس سے تم محبت کا
کہیں سے بھی تمہیں عاطفؔ اگر اچھا نہیں لگتا
ارشاد عاطفؔ احمدآباد انڈیا
Leave a Reply