تمثیلہ لطیف
آغازِ محبت ہے انجام خدا جانے
بے نام فسانہ ہے بے نام خدا جانے
تم کیسے بھلا اتنا لکھتی ہو روانی سے
الہام یہ ہوتا ہے الہام خدا جانے
میں صبر پہ قائم ہوں، ہے شکر سدا لب پر
آزار خدا جانے، آلام خدا جانے
میں جانتی اتنا ہوں رکھوالا ہے وہ سب کا
کہرام جو برپا ہے کہرام خدا جانے
ہے کام مرا روکوں کرتی ہوں مگر ہرسو
اصنام کی پوجا ہے اصنام خدا جانے
صدیق کی بیٹی ہوں پاکیزہ ہوں اے مرسل
الزام لگاتے ہیں الزام خدا جانے
تمثیلہ تو بندی ہے کم فہم بھی ہے تھوڑی
ابہام جو پیدا ہے ابہام خدا جانے
Leave a Reply