خدا کی ذات پہ جو انگلیاں اٹھاتے ہیں
ہاں ایسے لوگ جہنم میں گھر بناتے ہیں
یہ خاکِ دل ہے اِسے ہم نے شکل دینی ہے
آ کوزہ گر کے ترے چاک کو گھماتے ہیں
کبھی تو دل سے نکالے گا ہم کو اپنے وہ
راہِ فرار بھی دیوار میں بناتے ہیں
جو ہم سے صرف محبت کی بات کرتے ہیں
ہم اُن کے ناز زمانے میں کیوں اٹھاتے ہیں
اِسی کو عشق میں کارِ جدائی کہتے ہیں
یہی وہ نقص ہے جو ہم تجھے دکھاتے ہیں
کہ دل کا حال بیاں کر نہیں سکیں گے ہم
کچھ اس لیے بھی تجھے شاعری سناتے ہیں
اُنہیں خبر ہے محبت مہکتی ہے ہم میں
پرندے یوں تو نہیں گیت گنگناتے ہیں
شاعرہ تمثیلہ لطیف
Leave a Reply