روح کیا جسم کو ڈھکنے کی قبا بھول گۓ
اب تو ہم اپنے سروں کی بھی ردا بھول گۓ
دورِ ماضی میں جو منسوب رہی تھیں ہم سے
آج کیوں اپنی وہ ہم شرم و حیا بھول گۓ
کیوں نہ پھر اپنے اشاروں پہ نچاۓ دنیا
ہم انا دار ہی جب اپنی انا بھول گۓ
ایسے الجھے ہیں زمانے کے مساٸل میں ہم
کون ہے غیر تو ہے کون سگا بھول گۓ
خود کے کردار کی جب کر نہ سکے رکھوالی
آنکھ بچوں سے ملانے کی ادا بھول گۓ
آیٸے پاس کہ کچھ دیر گلے شکوے ہوں
آپ سے لوگ ہی کیوں رسمِ وفا بھول گۓ
ہم نے جس دنیا کو سمجھا ہے صبیحہ سب کچھ
یہ بھی ہو جا ۓ گی اک روز فنا بھول گۓ
ڈاکٹر صبیحہ ناز حسین
Leave a Reply