کتنے ناخوش تھے مرے یار نمو سے میرے
آخرش رنگ لیے ہاتھ لہو سے میرے
جانے کس ہاتھ سے شمشیر چلی گردن پر
ایک خوشبو سی روانہ ہے گلو سے میرے
میرے سینے سے مرا دل بھی نکل جائے اگر
کس طرح خود کو نکالو گے لہو سے میرے
اب تو بس چند دعائیں یا دوائیں ہیں دوست
کیسے رشتے تھے کبھی جام و سبو سے میرے
مجھ پہ چھائی ہوئی ہے موت سی خاموشی اب
کیوں مخاطب ہے کوئی آئنہ رو سے میرے
میں نے اک جنگ میں سیکھے تھے یہ ناز و انداز
مجھ کو اک بار محبت تھی عدو سے میرے
رو کے اک بار درِ یار پہ دستک دی تھی
دھل گئے سارے گنہ ایک وضو سے میرے
فہد قیصرانی
Leave a Reply