مثل زلف عنبریں راہوں کا پیچ و خم لگے
ہر صدا دیوانے کو پازیب کی چھم چھم لگے
اب کہاں دامان تقوی ہے ، پڑھیں جن پر نماز
اب کہاں ہے چہرۂ بےداغ جو مریم لگے
تم اسے آنچل کہو ، کاجل کہو ، بادل کہو
ابر پارے سرفروشوں کو سدا پرچم لگے
جانتا ہوں میرے پیچھے سازش خورشید ہے
اب مرا سایہ ہی میرا رہبر اعظم لگے
کورے کاغذ پر اسے اصلاح ملتی ہے مگر
آۓ جب اسٹیج پر تو شاعر اعظم لگے
Leave a Reply