اک شب مرے خیال نے الجھا دیا مجھے
خود کے ہی اک سوال نے الجھا دیا مجھے
بس اک عجب سا عالمِ شش و پنج تھا
نا جانے کیا ملال تھا یہ کیسا رنج تھا
ناں خوف موت کا رہا ناں جینے میں مزا
ناں پارسائی میں سکوں ناں پینے میں مزا
کیوں نیند میری آنکھوں سے اوجھل سی ہو گئی
کیوں رات میرے واسطے بوجھل سی ہو گئی
بس اک عجب طلسم میں کھوتا چلا گیا
شب بھر میں اک سوال کا ہوتا چلا گیا
پوچھا یہ میں نے خود سے فصیح کیا کرو گے تم
کب تک یوں اپنی ذات سے الجھا کرو گے تم
تم کیوں جہاں سے تنگ ہو بیزار ہو فصیح
تم اپنے آپ سے ہی کیوں دوچار ہو فصیح
سب کی امیدِ ناز کے قاتل بھی تم ہی ہو
اس جھوٹ کی زمین پے باطل بھی تم ہی ہو
گھر والے سوچتے ہیں کہ تم خود پرست ہو
نادان ہو کم عقل ہو پاگل ہو مست ہو
تم کو تمھارے یاروں نے بھی تنہا کر دیا
یعنی کے جاں سے پیاروں نے بھی تنہا کر دیا
اور پھر وہ دل ربا بھی تمہیں چھوڑ ہی گئی
جاتے ہوئے وہ دل کو ترے توڑ ہی گئی
لیکن ہو تم کے اب بھی پشیمان نیئں ہو
واقف حقیقتوں سے ہو نادان نیئں ہو
وابستگی کے عہد تمہیں یاد کس لیے
یوں تیرے خد و خال ہیں برباد کس لیے
تو اپنی بے خودی کا مجھے اب حساب دے
خاموش کیوں ہے بول نا کچھ تو جواب دے
جب گفتگو کا سلسلہ تمام ہو گیا
میں ہم کلام سے ہی ہم کلام ہو گیا
سچ ہے امیدِ ناز کا قاتل بھی میں ہی ہوں
مانا کے اس زمین پے باطل بھی میں ہی ہوں
میں خود پرست بھی ہوں اُر انا پرست بھی
ناداں ہوں کم عقل ہوں پاگل ہوں مست بھی
مجھ کو کسی بھی شخص سے کوئی گلہ نہیں
اچھا ہوا کے کوئی بھی مجھ کو ملا نہیں
اُر جب سے مرے یار مجھے تنہا کر گئے
میرے لیے تو تب سے ہی وہ سارے مر گئے
وہ اپنے گناہوں تھے کیوں ڈھانپتے حضور
وہ یار نیئں آستیں کے سانپ تھے حضور
پر اس وفا شکن کا مجھے غم ہے آج بھی
کے اس کی یاد میں یہ آنکھ نم ہے آج بھی
میں اس کے خد و خال کے بارے میں کیا کہوں
زلفوں کے بچھے جال کے بارے میں کیا کہوں
وہ جس میں مجھے گھیر کے مارا گیا فصیح
معصوم سی اس چال کے بارے میں کیا کہوں
میں کیا کہوں کے زیست کا سامان لے گئی
زندا ہوں مگر مجھ سے مری جان لے گئی
دل رو رہا ہے آج بھی اس کے ملال میں
پاگل سا ہو گیا ہوں فقط بیس سال میں
Leave a Reply