Today ePaper
Rahbar e Kisan International

غزہ میں بھوک سےدوملین افرادکےمرنےکاخدشہ

Articles , Snippets , / Thursday, May 22nd, 2025

rki.news

تحریر:اللہ نوازخان
allahnawazk012@gmail.com

غزہ ایک ایسی بستی بن چکی ہے جہاں موت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔بمباری سےبہت سے افراد شہید ہو رہے ہیں،لیکن بھوک سے بھی دو ملین افراد ہلاک ہونے والے ہیں۔عالمی ادارہ صحت(WHO)کے سربراہ ٹیڈ روز ایڈ ہانوم گیبریاسس نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ بچوں سمیت دو ملین افراد موت کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔حالانکہ چند منٹ کی دوری پر ایک لاکھ ساٹھ ہزار ٹن خوراک موجود ہے لیکن اسے داخل ہونے کی اجازت نہیں۔دو ماہ سے ناکہ بندی جاری ہے،جس کی وجہ سےلاکھوں افراد بھوک سےمرنے والے ہیں۔صرف بھوک سے نہیں مر رہے بلکہ بیماریوں سے بھی مر رہے ہیں۔خوراک کے ساتھ ادویات کو بھی غزہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔بعض اوقات معمولی سی بیماریاں بھی جان لیوا ثابت ہو رہی ہیں۔یہ ایک ایسی المناک صورتحال ہے جس سے انسان سسک سسک کر مر رہے ہیں۔لاکھوں ٹن خوراک کو روک دیا گیا ہے کیونکہ اسرائیل چاہتا ہے کہ غزہ پر مکمل طور پر قبضہ کر لیا جائے۔بہت سے افرادبیماریوں کا شکار ہیں،اگران کو فوری طور پرادویات دستیاب ہو جائیں تو وہ جانیں بچ سکتی ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق چند گھنٹوں کے اندر اگرغزہ کے اندر خوراک نہ پہنچی توچودہ ہزار بچے فوری طور پر ہلاک ہو جائیں گے۔مزید دیر ہونے کی صورت میں دو لاکھ افراد فوری طور پر مر سکتے ہیں اور زیادہ دیر کرنے کی صورت میں بیس لاکھ افراد موت کا شکار ہو سکتے ہیں۔ہسپتال بھی تباہ ہو چکے ہیں اور ادویات بھی بالکل ختم ہو چکی ہیں،صرف بیرونی طور پر ادویات اور خوراک کی صورت میں مدد فلسطینیوں کو مرنے سے بچا سکتی ہے۔اسرائیل جنگ بندی معاہدہ کر کےتوڑ چکا ہے اور دوبارہ حملے شروع کر دیے ہیں۔بین الاقوامی برادری اسرائیل کومزید حملوں سے روکےاورابو سالم راہداری پر جو امداد روکی گئی ہے فوری طور پر مظلوم فلسطینیوں تک پہنچائی جائے۔صرف خوراک کےپانچ ٹرک بین الاقوامی دباؤ پراسرائیل نے غزہ میں بھیجنے کی اجازت دی ہے۔پانچ ٹرک لاکھوں افراد کے لیے بہت ہی کم ہیں،یوں سمجھا جائے کہ وہ ایک قطرے کی مانندہیں۔تھوڑی سی خوراک لاکھوں افراد کا پیٹ نہیں بھر سکتی۔زیادہ خوراک کی فلسطین میں ضرورت ہے،لہذا لاکھوں ٹن خوراک فوری طور پر غزہ میں بھیجی جائے۔
اسرائیل جنگ کو روکنے کے لیے بالکل تیار نہیں۔اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نےکہا ہے کہ جنگ کے اختتام پر پورا غزہ اسرائیلی سیکورٹی کنٹرول میں ہوگا۔یہ بھی اس کی طرف سےکہا گیا ہےکہ حماس کو ہتھیار ڈالنے ہوں گے اور اس کی قیادت کو غزہ چھوڑنا ہوگا۔غزہ کو غیر مسلح کرنے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم نے یہ بھی کہا ہے کہ جو غزہ چھوڑنا چاہے اس کو جانے کی اجازت دے دی جائے گی۔اسرائیلی وزیر اعظم کے ان بیانات سےواضح ہوتا ہے کہ غزہ پر مکمل قبضہ کرنےکا پلان بنایا جا چکا ہے۔اسرائیل اس لیے بمباری کر رہا ہے کہ غزہ پر مکمل قبضہ کر لیا جائے۔غزہ کی تباہی کے بعد اسرائیل دوسرے علاقوں کی طرف رخ کرے گا اور اس وقت ان علاقوں کے باسی پچھتائیں گے،لیکن اس وقت کچھ نہیں کر سکیں گے۔جنگ کے دوران خوراک روکنا انتہا کا ظلم ہے،لیکن اسرائیل طاقت کے نشے میں کسی بات کی پرواہ تک نہیں کر رہاہے۔اسرائیل جدید اسلحہ اور بھاری ہتھیاروں کے ذریعےغزہ کو تباہ کر رہا ہے۔امریکہ بھی اسرائیل کی مدد کر رہا ہے۔اسرائیل کو روکنا ہوگا تاکہ مزید ظلم نہ کرے۔
کچھ دن پہلے ٹرمپ نے بھی کہا ہے کہ غزہ میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں،ان کی مدد کرنا ہوگی۔یہ بات ہر ایک جانتا ہے کہ ٹرمپ اگر چاہیں تو فوری طور پر غزہ کے مظلوموں تک امداد پہنچ سکتی ہے،لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا۔ٹرمپ کو تو چھوڑیے،اسلامی ممالک کےحکمران بھی خاموش بیٹھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔برطانیہ نےتشویش کا اظہار کیا ہے،لیکن اسلامی ریاستوں کی طرف سےخاموشی بہت ہی افسوسناک ہے۔کچھ دن پہلے امریکی صدر نے مشرق وسطی کا دورہ کیا۔ٹرمپ کاشاندار استقبال کیا گیا اور اس کو قیمتی تحفے دیے گئے۔اربوں ڈالر کے معاہدے کیے گئے،لیکن فلسطینیوں کے لیےکچھ نہ کیا گیا۔او آئی سی جو کہ اسلامی ممالک کی نمائندہ تنظیم ہے،لیکن ادھر بھی خاموشی ہے۔اسرائیل کے اندر بھی کچھ آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ جنگ کو روک دیا جائے۔کئی مغربی ممالک میں بھی بہت سی جگہوں پر احتجاج بھی ہو رہے ہیں کہ ظلم کو روک دیا جائے۔اسرائیل کسی صورت میں جنگ روکنے کے لیے تیار ہی نہیں۔اسرائیل کی طرف سے دعوی کیا جاتا ہے کہ ابھی بھی کچھ یرمغالی حماس کے پاس موجود ہیں،لیکن یرمغالی اگر رہا بھی ہو جائیں تو پھر بھی اسرائیل جنگ کو نہیں روکے گا۔اسرائیل کا مقصد یہ ہے کہ غزہ کو مکمل طور پر کنٹرول میں لایا جائے۔فلسطینی ظلم برداشت کر رہے ہیں،شہید ہو رہے ہیں،بھوک سے بلک بلک کر مر رہے ہیں اور ادویات کی کمی کی وجہ سےسسک سسک کر مر رہے ہیں لیکن آزادی کی جنگ لڑ رہے ہیں۔بےپناہ بمباری کا فلسطینیوں نے سامنا کیا ہےاور اب بھی مصیبتیں برداشت کر رہے ہیں لیکن آزادی کو کھونا نہیں چاہتے۔ہو سکتا ہےغزہ پر قبضہ ہو جائے لیکن وہ آسانی سے ہار نہیں مانیں گے۔
غزہ میں بھوک کا بحران سنگین تر ہو گیا ہے۔لوگ فاقوں سے مر رہے ہیں۔گھاس اور پتوں کے علاوہ کچھوے اور دیگر جانور کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔چند لقموں کاحصول ان کے لیےمشکل ہو گیا ہے۔اسلامی ممالک اگر کوئی اور مدد نہیں کر سکتے تو کم از کم خوراک تو ان تک پہنچانے کا بندوبست کریں۔اسرائیل پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ خوراک اور ادویات کو نہ روکے۔کتنے دکھ کی بات ہے کہ غزہ میں موت کا راج ہےاور پوری دنیا خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔کئی بیمار افراد خطرناک بیماریوں میں مبتلا ہو چکے ہیں۔کینسراور دیگر خطرناک بیماریوں کے مریض ہزاروں کی تعداد میں موجود ہیں اور ان کا علاج دوسرے ممالک میں ممکن ہے،ضروری ہے کہ دوسرے ممالک انسانی ہمدردی کے تحت ان خطرناک بیماریوں میں مبتلا افرادکواہنےہاں بلائیں اوران کا علاج کریں۔غزہ میں بھوک قحط کی صورت اختیار کر چکی ہے۔بجلی اور پانی کی عدم دستیابی نےمشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔خدارا اسلامی ممالک کے حکمران جاگیں اور ان مظلوموں کی مدد کریں جوایک ایک نوالے اور ایک ایک ٹیبلٹ کو ترس رہے ہیں۔انسانی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں لیکن اگردیر کی گئی تو لاکھوں انسان مر جائیں گے۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International