تازہ ترین / Latest
  Wednesday, December 25th 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

فیض احمد فیض: اردو کے عہد ساز شاعر اور دانشور کی 40 ویں برسی (1911-1984)

Articles , Snippets , / Wednesday, November 20th, 2024

تحریر احسن انصاری

یض احمد فیض اردو ادب کی تاریخ کے سب سے بااثر اور مشہور شاعروں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایک ایسا شاعر جس کی شاعری نے سرحدوں کو پار کیا اور کروڑوں دلوں کو چھو لیا، فیض محبت، انقلاب اور سماجی انصاف کے موضوعات پر اپنی گہری شاعری کے لیے مشہور ہیں۔ ان کی شاعری آج بھی دنیا بھر میں قارئین، ادیبوں اور کارکنوں کو بے پناہ متاثر کرتی ہے۔
فیض احمد فیض 13 فروری 1911 کو سیاہ کوٹ، پنجاب، ہندوستان (جو اب پاکستان کا حصہ ہے) میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان کا تعلق ایک پڑھے لکھے اور ثقافتی ماحول سے تھا۔ ان کے والد سلطان محمد ایک سول سرونٹ تھے اور والدہ ایک پڑھی لکھی اور سماجی طور پر باخبر خاتون تھیں، جنہوں نے فیض میں علم اور ادب کے لیے محبت پیدا کی۔ فیض کا بچپن ادب، تاریخ اور فنون سے بھرپور ماحول میں گزرا، جس نے ان کی ادبی حسیت کو شکل دی۔
فیض نے گورنمنٹ کالج لاہور میں تعلیم حاصل کی جہاں انہوں نے ابتدائی طور پر انگریزی ادب میں دلچسپی لی۔ تاہم، فارسی، عربی اور کلاسیکی اردو شاعری نے ان کے ادبی سفر پر سب سے زیادہ گہرا اثر ڈالا۔ وہ خاص طور پر مشہور اردو اور فارسی شعراء جیسے مرزا غالب، علامہ اقبال اور مولانا رومی سے متاثر تھے۔
فیض کا ادب سے تعلق 1930 کی دہائی میں “پروگریسو رائٹرز موومنٹ” (PWM) میں شمولیت سے بڑھ گیا۔ یہ تحریک ادبی دنیا میں سماجی ناانصافی، غریبی اور سیاسی جبر کے خلاف آواز بلند کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اس وقت فیض کو مارکسی نظریات سے متاثر ہونے کا موقع ملا، جو نوآبادیاتی ہندوستان اور بعد کے دور کے پاکستان میں سماجی ناہمواریوں کو سمجھنے میں ان کی مدد کرتے تھے۔ فیض نے ادب کو معاشرتی تبدیلی کی طاقت سمجھا اور ان کی شاعری میں یہ عزم جھلکتا تھا۔ فیض کی پہلی شعری کتاب “نقشِ فریادی” (1941) تھی، جو ان کی شاعری کی شناخت بن گئی۔ اس کتاب میں انہوں نے ذاتی اور سیاسی موضوعات کو یکجا کیا اور مزاحمت اور امید کی طاقت کو بیان کیا۔
فیض کی زندگی سیاسی واقعات سے جڑی رہی۔ وہ صرف ایک شاعر نہیں بلکہ ایک عوامی دانشور بھی تھے، جن کا ادب ان کے سیاسی نظریات کے ساتھ گہرا تعلق رکھتا تھا۔ 1940 کی دہائی میں فیض کی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کے ساتھ وابستگی نے ان کی شاعری کو مزید طاقتور بنا دیا، جو نہ صرف فرد کی جدوجہد بلکہ سماجی تبدیلی کی اجتماعی کوششوں کو بھی اجاگر کرتی تھی۔
فیض کا سب سے مشہور نظم “ہم دیکھیں گے” ہے، جو ان کی انقلابی شاعری کا ایک جیتی جاگتی مثال ہے۔ یہ نظم ظلم کے خلاف مزاحمت اور انصاف کے لیے جدوجہد کی غماز ہے اور دنیا بھر میں ایک احتجاجی نغمہ کے طور پر مقبول ہوئی ہے۔
فیض کی ذاتی زندگی بھی مشکلات سے بھری رہی۔ 1948 میں پاکستان کے قیام کے بعد فیض کو حکومت کے خلاف سازش کرنے کے الزامات میں گرفتار کر لیا گیا اور وہ “راولپنڈی سازش کیس” میں تقریباً چار سال جیل میں رہے۔ اس دوران انہوں نے مزید شاعری کی، اور اس دور کی نظموں میں خاص طور پر ان کی کتاب دستِ صبا (1952) نے ان کے عزم اور استقامت کو اجاگر کیا۔
فیض کی بیوی ایلس فیض ان کی زندگی کا اہم حصہ تھیں۔ ایلس ایک برطانوی نژاد خاتون تھیں اور نہ صرف ان کی شریک حیات بلکہ ایک ذہین اور معاون شخصیت بھی تھیں۔ ایلس نے فیض کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جس سے ان کی شہرت عالمی سطح پر پھیل گئی۔
فیض کی شاعری جمالیاتی لحاظ سے بھی متاثر کن ہے اور جذباتی لحاظ سے گہری۔ ان کا اسلوب کلاسیکی اردو شاعری کی خوشبو اور جدید حسیت کا حسین امتزاج ہے۔ وہ غزل، نظم، اور رباعی جیسے مختلف شعری قالبوں میں شاعری کرتے تھے، اور اپنے تخلیقی عمل میں روایتی موضوعات کو جدید مسائل سے جوڑتے تھے۔
فیض کی شاعری میں محبت کا ایک اہم مقام ہے، جسے وہ انقلاب کی علامت کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ان کی مشہور غزل “مجھ سے پہلی سی محبت” میں وہ ذاتی محبت کے تجربات کو سیاسی و سماجی جدوجہد سے جوڑتے ہیں۔
فیض کی شاعری میں سماجی انصاف کی تڑپ نمایاں رہی۔ وہ غریبوں، کسانوں اور سماج کے کمزور طبقات کے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے تھے۔ ان کی نظم “بول کہ لب آزاد ہیں تیرے” میں وہ آزادی اظہار اور دبے ہوئے طبقات کے حقوق کی بات کرتے ہیں۔
فیض کی شاعری میں انقلاب اور مزاحمت کا تھیم بھی اہم ہے۔ “ہم دیکھیں گے” ان کے انقلابی خیالات کا سب سے مشہور اظہار ہے، جو ظلم کے خلاف مزاحمت اور اجتماعی آزادی کا پیغام دیتا ہے۔
فیض ایک انسان دوست اور عالمی سطح پر انسانوں کے حقوق کے حامی تھے۔ ان کی شاعری مذہبی اور نسلی حدود سے آزاد ہے، اور یہ ہر فرد کے مساوی حقوق کی بات کرتی ہے۔
جیل سے رہائی کے بعد 1950 کی دہائی میں فیض نے دوبارہ شاعری، ادارت اور عوامی زندگی میں حصہ لیا۔ وہ پاکستان ٹائمز کے مدیر بھی رہے اور ان کی ادبی و سیاسی تحریریں پاکستان کی فکری دنیا کو متاثر کرتی رہیں۔ 1960 اور 1970 کی دہائی میں فیض کا عالمی سطح پر مقام مزید بلند ہوا، خاص طور پر جب وہ پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی دباؤ کے باعث خود ساختہ جلاوطنی اختیار کرنے کے بعد بیروت اور لندن میں مقیم ہوئے۔ ان کا کلام مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا، اور ان کی عالمی شہرت میں اضافہ ہوا۔1962 میں فیض کو سوویت یونین کی طرف سے لینن امن ایوارڈ سے نوازا گیا، جس سے ان کی عالمی سطح پر پہچان مزید مستحکم ہوئی۔ فیض کی ملاقاتیں دنیا کے مشہور دانشوروں اور ادیبوں سے ہوئیں، جن میں پابلو نرودا اور گبریل گارسیا مارکیز جیسے نام شامل ہیں۔
فیض احمد فیض کا ورثہ صرف ان کی شاعری میں نہیں بلکہ ان کے سیاسی نظریات، انسانی حقوق کی جدوجہد اور عالمی ادب میں ان کے اثرات میں بھی شامل ہے۔ انہیں 20 ویں صدی کے بہترین شعراء میں شمار کیا جاتا ہے، اور ان کا کلام آج بھی دنیا بھر میں پڑھا، سنا اور ادا کیا جاتا ہے۔ ان کی شاعری کا پیغام امید، مزاحمت اور سماجی انصاف کے لیے جدوجہد کا ہے، اور ان کی یہ آواز آج بھی زندہ ہے۔
پاکستان میں فیض کی شاعری کو نہ صرف ادب کا حصہ سمجھا جاتا ہے بلکہ وہ پاکستان کی ثقافتی وراثت کا ایک لازمی جزو ہیں۔ ان کے اثرات آج بھی اردو شاعری کی دنیا پر گہرے ہیں، اور ان کی نظمیں آج بھی عوامی تحریکوں کی علامت بن چکی ہیں۔ فیض احمد فیض کی شاعری آزادی، انصاف اور انسانی وقار کے لیے ایک مستقل جدوجہد کی علامت ہے۔ انہوں نے اپنے اشعار میں ذاتی احساسات کو اجتماعی تحریکوں کے ساتھ ہم آہنگ کیا، اور ان کی شاعری آج بھی دنیا بھر کے لوگوں کو اپنے حقوق کے لیے لڑنے کی ترغیب دیتی ہے۔ ان کی نظموں میں جو طاقت ہے۔ فیض احمد فیض 20 نومبر 1984 کو طویل علالت کے باعث لاہور میں انتقال کر گئے۔ وہ آنے والی نسلوں کے لیے ایک رہنمائی کی حیثیت رکھتی ہے، اور فیض کا پیغام کبھی نہی مرے گا۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International