گزشتہ دو دہائیوں نے انسانی زندگی کو جتنا داغدار، جتنا ملیا میٹ، جتنا تباہ و برباد کیا ہے شاید ہی کسی اور زمانے نے انسان کو اتنا داغدار کیا ہو، شاید ہی کسی زمانے نے انسان کو اتنا ملیا میٹ کیا ہو، شاید ہی کسی زمانے نے انسان کو اتنا تباہ و برباد کیا ہو، شاید ہی کسی زمانے نے انسان کو اتنا سسکایا ہو، شاید ہی کسی زمانے نے انسان کو اتنا رلایا ہو.وہ لوگ جو ایکدوسرے کی جند جان ہوتے تھے وہ لوگ جو ایکدوسرے کی سنگت میں خوشی محسوس کرتے تھے وہ لوگ جن کی تربیت ہی ایثار و وفا اور محبت کے خمیر کے رچاو بساو میں ہوی تھی وہ جو مل بانٹ کے کھاتے اور مل بانٹ کے ہی ایکدوسرے کے دکھ سکھ کے پل میں آسانیاں پیدا کرتے تھے وہ جو نہ ہی کسی کا مذاق اڑاتے تھے نہ کسی کے دکھوں، غموں اور محرومیوں کی تشہیر کرتے تھے, اگر کسی کو بیماری ہے تو اس کی شفا یابی کے خود بھی دعا کرتے تھے اور دوسروں سے بھی کرواتے تھے.
لوگ، لوگوں سے پیار کرتے تھے
لوگوں پہ جاں، نثار کرتے تھے
شہر دل کی امیر گلیوں میں
اہل غم. کا خیال کرتے تھے
کسی بے سمت راہ میں گم ہو کے
ہم بھول بیٹھے سبھی قول و قرار
ہم. نے سر باندھ لی اک بے وجہ ہار
تو کہنے کو ہم نے بڑی ترقی کر لی، ساینس کے کندھوں پہ سوار ہو کے ایک مشینی دور میں داخل ہو گیے، مال و زر لٹا کے ڈگریوں کے انبار بھی جمع کر لیے اور ان ڈگریوں کے بل بوتے پہ اونچی اونچی پوسٹوں پہ بھی جا بیٹھے بے تحاشا کما کے زندگی کی تمام سہولیات سے فایدے اٹھانے کے باوجود ہم اتنے کم ظرف، اتنے شودے، اتنے کمینے ہو گیے کہ ہم نے اپنے اندر کے بیدار انسان، اپنے ضمیر کو ہی مار دیا، اس روحانی خود کشی کا نقصان یہ ہوا کہ ہم بالکل کھوکھلے، تنہا اور ویران ہو گیے.
لان میں عشق پیچاں کے ہیں پھول
روح پہ دھول ہے بس دھول ہی دھول
تو اگر کبھی اس مقناطیسی، بھاگم بھاگ، اور الیکٹرانک دنیاوی زندگی سے چند پل آپ فرصت کے چرانے میں کامیاب ہو پایں تو ضرور سوچیے گا کہ وہ لوگوں میں عام لوگوں کی طرح رہنا سہنا اچھا تھا یا یہ کلف زدہ گردن کے ساتھ برانڈڈ ملبوسات اور مہنگی گاڑیوں کی پھوں پھاں کے ساتھ بڑی بڑی رہایشی سکیموں میں بڑے بڑے محلات کے بڑے بڑے کمروں میں اپنی اپنی قید تنہائی کاٹنا. پہلے سنتے تھے کہ انسانی خون اپنے ہونے کی گواہی دیتا ہے ذات پات اور اونچ نیچ کی کیا تکرار جب ہم اور آپ سارے ہی آدم کی اولاد میں سے ہیں تو پھر حسب نسب کا کیا پرچار.؟ ہر انسان کے من میں اچھائی اور برای کی جاری جنگ ہی حسب نسب کی نشاندہی کرتی ہے جس نے اچھای کا راستہ منتخب کر لیا وہ اللہ کے راستے پہ ہو گیا اور جس نے بدی کی راہ چن لی وہ ابلیس کے راستے پہ ہو گیا.
راستے دو ہی تھے
راستوں کے شہر میں
زندگی کی بحر میں
راستے دو ہی تھے
تیسری تو موت تھی
ہر زمانے کے اچھے اور پیارے لوگ اس نوحے کا الاپ کرتے ہوے دنیا سے رخصت ہو گئے کہ
اس دور میں الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
تو محبت، خلوص اور مہر و وفا کو آہستہ آہستہ اس طرح سے کھڈے لین لگایا گیا کہ اب ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتی اس میں ہمارا، آپ کا اور ہم سب کے آباو اجداد کی کاوشیں یکساں طور پہ شامل ہیں، نعمان علی ایک سات سال کا ہنستا مسکراتا بچہ تھا اس کے والدین کا تعلق شہر کے مضافاتی علاقے سے تھا جی وہی علاقہ جسے آپ پنڈ کہہ کر اپنی احساس کمتری کی محرومی کو تھوڑا سا بہلانے کی کوشش کرتے ہیں بچہ ایک پڑھے لکھے اور سلجھے ہوے خاندان سے تھا نعمان علی کے کلاس فیلو حمزہ شہباز کی دسویں سالگرہ تھی جس میں تمام کلاس فیلوز اور احباب کو مدعو کیا گیا تھا مرغن غذایں، باربی کیو، میجک شو، ناچ گانے کے ساتھ خوب ہلا گلا کیا گیا یہاں تک ٹھیک تھا کھانے پینے اور کیک کٹنگ کےمشغلے کے بعد جو خطرناک کھیل شروع ہوا وہ یہ بتانے کے لیے کافی تھا کہ خاندان نو دولتیا ہے حمزہ کی دادی اماں نے گھر میں مدعو تمام بچوں اور مہمانوں کے سامنے تحایف کھول کھول کے ان کی نمایش شروع کر دی یہ ہزار ڈالر تایا جی کی طرف سے یہ ایپل کا فون چھوٹی ممانی کی طرف سے اور جب بات نعمان علی کے تحفے اور اس کے مذاق تک پہنچی تو بات سنکھیا زہر کی طرح دس سالہ نعمان کے دل میں جا کر بیٹھ گءی اور اس زیریلی بات نے اسے ساری عمر خون کے آنسو تو رولایا ہی اپنی سادہ لو ماں سے بھی کبیدہ خاطر کر دیا جس نے بھولپن کی انتہا پہ جا کے نعمان کو اپنے دوست شہباز کے لیے eclair ٹافیوں کا چھوٹا پیک سالگرہ کے تحفے کے طور پہ دے دیا تھا والدہ یا نعمان کو تھوڑا پتا تھا کہ یہ نفسا نفسی، یہ اخلاقی گراوٹ جس کی روح رواں دادی جان تھیں کا درس اور عملی طور پر اس درس کی ترویج کا عمل باقاعدہ طور پر شروع ہو چکا ہے اور اس کا شکار ننھا نعمان ہو چکا تھا مجھے دو دہائیاں پہلے دیہاتوں میں ہونے والی داج وکھای اور وری وکھای کی رسمیں یاد آ گییں جن میں لڑکی کا جہیز اور دولہے کی طرف سے بناے گیے ملبوسات اور زیورات جی باقاعدہ نمایش ہوتی تھی اور پھر ہنسی مذاق اور لعن طعن کاsession بھی ساتھ ساتھ چلتا تھا تو اتنی تعلیم، اتنی دولت کے باوجود کہاں ہے شعور ہم تو آج بھی وہیں پہ کھڑے ہیں جہاں صدیوں پہلے کھڑےتھے، ام زارا ایک بینک میں مینیجر تھی اس کی عین رخصتی والے دن بارات وآپس لوٹ گءی وجہ یہ بتائی گءی کہ دولہن جہیز میں Fortuiner کی جگہ kiasportage لانے کی سزاوار ٹھہری تھی.
شادی جیسے مقدس رشتے کو باندھنے کے لیے ہم نفسانفسی کے مارے نمود و نمایش کے رسیا بیوقوفوں نے اتنا مہنگا اور پیچیدہ مرحلہ بنا دیا ہے کہ اب نکاح کے دو بول پڑھوانے کے لیے بھی نمودونمایش کے جن کا پیٹ بھرنے کے لیے جیب میں لاکھوں ہونے چاہیئے ورنہ صبر سے بیٹھنا ہی بہتر ہے.
نکاح، مایوں، مہندی، رخصتی اور ولیمہ سے لیکر شادی کے بعد تک کے لوازمات ایک عام انسان کی کمر توڑنے کے لیے کافی ہوتے ہیں. اور پھر برینڈ برینڈ کرتی عوام نے تو ہر کس و ناکس کے چھکے ہی چھڑا دیے. منیرے ماموں عرصہ دراز سے امریکی ریاست نیو جرسی میں مقیم ہیں انھوں نے جب وہاں کے قبرستان دکھاے تو وہ صاف شفاف سنگ مر مر سے سجے سجاے قبرستان دیکھ کے ایک بار تو دل نے یہی خواہش کی کہ کاش ہمیں بھی اسی سفید سنگ مر مر سے منقش قبرستان میں مرنا نصیب ہو مگر جب منیرے ماموں نے بتایا کہ یہاں مرنا بھی پندرہ بیس لاکھ میں پڑتا ہے تو ہم نے لاحول والا پڑھ کے اس فاسق خیال سے اپنی جان چھڑوا لی. مگر جب پچھلے ماہ ہماری ہمسای بخت آرا تقریباً اسی سال کی عمر میں داغ مفارقت دے گییں اور انھیں سوسائٹی کے قبرستان میں دفن کیا گیا تو ہماری آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گییں. یہاں بھی تمام قبریں سنگ مر مر ہی تھیں گورکن لاکھ ڈیڑھ لاکھ روپے میں سایز کے حساب سے بہترین ماربل کی قبر تیار کروایں اور موت کو بھی برانڈڈ کر دیں مرنے والے کے گھر میں میت کے اٹھتے ہی لوگوں کا قورمے اور بریانی کی دیگوں پر دھاوا بولنا تو دیکھتے آئے تھے اب یہ قبروں کا مقابلہ بھی خوب ہے، ماسی صغرا نے اپنی بہو سے بول چال اس لیے بند کر دی تھی کہ اس نے اپنے والدین کے مرنے کے بعد ان کی قبروں پہ ماربل بھی لگوا دیا تھا تو غور فرمائیے گا ہم اخلاقیات اور انسانیت کی کس قطار، شمار میں کھڑے ہیں حم. حسد، بناوٹ اور نمود و نمایش کے حصار میں بری طرح سے جکڑے ہوے.
نمایش اور دکھاوے نے
بناوٹ کے سیاپے نے
ہمیں تنہا ہی کر ڈالا
سب سے جدا ہی کر ڈالا
جو سچ پوچھو تو ہم نے
اپنی ہستی اور آنے والے کل کو بھی
تباہ ہی کر ڈالا
اللہ پاک آسانیاں فرمائے آمین ثم آمین
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
naureendoxtorpunnam@gmail.com
Leave a Reply