(تحریر احسن انصاری)
قرآن پاک جو اسلام کی مقدس کتاب ہے اور اللہ کی طرف سے نازل کردہ ایک الہامی کتاب ہے، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر 23 سال کے عرصے میں نازل ہوئی۔ یہ نہ صرف مسلمانوں کے لیے ہدایت کا ذریعہ ہے بلکہ ایک ایسی کتاب بھی ہے جس میں بے شمار معجزات موجود ہیں جو علماء اور مؤمنین کو حیران کر دیتے ہیں۔ ان معجزات کو دو بڑے پہلوؤں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: سائنسی اور روحانی۔
اگرچہ قرآن سائنس کی کتاب نہیں، لیکن اس میں کئی ایسی آیات موجود ہیں جو جدید سائنسی دریافتوں سے ہم آہنگ ہیں، جو نزولِ قرآن کے وقت نامعلوم تھیں۔ قرآن کائنات کی توسیع کا ذکر اس آیت میں کرتا ہے: “اور ہم نے آسمان کو قوت کے ساتھ بنایا اور ہم ہی اسے وسعت دینے والے ہیں۔” (سورۃ الذاریات 51:47). یہ آیت جدید سائنس کے “بگ بینگ تھیوری” اور ایڈون ہبل کی دریافت کے مطابق ہے، جس کے تحت کائنات مسلسل پھیل رہی ہے، جو ساتویں صدی میں کسی کو معلوم نہ تھا۔
سورۃ المؤمنون میں انسانی جنین کی نشوونما کے مراحل کا ذکر کیا گیا ہے: “اور بے شک ہم نے انسان کو مٹی کے خلاصے سے پیدا کیا۔ پھر ہم نے اسے ایک محفوظ جگہ میں نطفہ بنایا۔ پھر نطفہ کو جمے ہوئے خون کی شکل دی، پھر اس خون کو گوشت کا لوتھڑا بنایا، پھر لوتھڑے سے ہڈیاں بنائیں، پھر ہڈیوں کو گوشت سے ڈھانپ دیا، پھر ہم نے اسے ایک نئی تخلیق بنا دیا۔” (سورۃ المؤمنون 23:12-14). جدید علمِ جنینیات (ایمبریالوجی) کے ماہر ڈاکٹر کیتھ مور نے تصدیق کی ہے کہ یہ بیان انسانی نشوونما کے مراحل سے مکمل طور پر مطابقت رکھتا ہے۔
قرآن سمندروں میں کھارے اور میٹھے پانی کے درمیان موجود رکاوٹ کے بارے میں کہتا ہے: “اس نے دو سمندروں کو چھوڑ دیا، جو باہم ملتے ہیں۔ ان کے درمیان ایک پردہ ہے جس سے وہ تجاوز نہیں کرتے۔” (سورۃ الرحمن 55:19-20)۔ جدید سمندری ماہرین (اوشیانوگرافرز) نے دریافت کیا کہ جہاں میٹھا اور کھارا پانی ملتے ہیں، وہ کثافت، درجہ حرارت اور نمکیات کی مقدار کی وجہ سے جدا رہتے ہیں، جسے “ایسٹورین اوشیانوگرافی” کہا جاتا ہے۔قرآن پہاڑوں کو زمین کے لیے استحکام کا ذریعہ قرار دیتا ہے: “کیا ہم نے زمین کو فرش نہیں بنایا؟ اور پہاڑوں کو میخیں؟” (سورۃ النبأ 78:6-7). جدید ارضیات (جیولوجی) سے معلوم ہوتا ہے کہ پہاڑ زمین کے اندر گہرے جڑیں رکھتے ہیں، جو زمین کی پرتوں کو مستحکم رکھنے میں مدد دیتے ہیں، جیسے میخیں خیمے کو جکڑ دیتی ہیں۔ قرآن کے سائنسی پہلوؤں کے علاوہ، اس میں ایسے روحانی معجزات بھی ہیں جو انسانوں کی زندگیوں میں حیرت انگیز تبدیلیاں لاتے ہیں۔ قرآن کی زبان، اسلوب، اور ساخت ایسی بے مثال ہے کہ ساتویں صدی کے ماہرینِ ادب اور شاعر بھی اس جیسی کوئی چیز پیش کرنے میں ناکام رہے، جیسا کہ قرآن میں چیلنج کیا گیا: “اور اگر تمہیں اس میں شک ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے، تو اس جیسی ایک سورۃ لے آؤ۔” (سورۃ البقرہ 2:23)
قرآن کا اپنے قاری اور سننے والے پر گہرا جذباتی اور نفسیاتی اثر ہوتا ہے۔ کئی غیر مسلموں نے گواہی دی کہ قرآن کی آیات نے انہیں سکون، ہدایت اور ان کے دلوں کے سوالات کے جوابات فراہم کیے۔ قرآن میں کئی پیشگوئیاں بھی موجود ہیں جو بعد میں سچ ثابت ہوئیں، جیسے رومیوں کی فارسیوں پر فتح: “رومی مغلوب ہو گئے ہیں۔ قریب ترین سرزمین میں۔ لیکن وہ اپنی شکست کے بعد چند سال میں غالب آ جائیں گے۔” (سورۃ الروم 30:2-4) یہ واقعہ بالکل ویسے ہی پیش آیا جیسے قرآن میں بیان کیا گیا تھا، حالانکہ اس وقت یہ ناممکن لگتا تھا۔
دیگر مذہبی کتابوں کے برعکس، قرآن 1400 سال سے بغیر کسی تبدیلی کے محفوظ ہے۔ یہ لاکھوں لوگوں کے سینوں میں محفوظ ہے اور اللہ کے اس وعدے کی تکمیل کرتا ہے: “بے شک ہم نے ہی یہ ذکر (قرآن) نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔” (سورۃ الحجر 15:9)
قرآن ہر لحاظ سے ایک معجزاتی کتاب ہے—سائنسی، روحانی، اور لسانی اعتبار سے۔ اس میں موجود سائنسی نکات جدید تحقیق سے ثابت ہو رہے ہیں، جبکہ اس کے روحانی پہلو لاکھوں لوگوں کے لیے ہدایت، امن اور روشنی کا ذریعہ ہیں۔ جو لوگ غور و فکر کرتے ہیں، ان کے لیے قرآن واضح دلیل ہے جو انہیں علم حاصل کرنے اور اپنے خالق سے تعلق مضبوط کرنے کی دعوت دیتا ہے۔
####
Leave a Reply