rki.news
بقلم: احمد وکیل علیمی
عید الاضحیٰ کا مہینہ آنے سے قبل ہی ہم قربانی پیش کرنے کے جذبے سے سرشارنیز نبرد آزما ریتے ییں۔ جوروں کی خریداری میں پرُ از اشتیاق نظر آتے ہیں۔ اپنی محنت اور جائز کمائی سے خریدے گئے جانور کی قربانی پیش کرکے ہم اطاعتِ الٰہی کو فرمان واجب الاذعان سمجھتے ہیں۔ لیکن جیسے ہی ہم قربانی پیش کرچکتے ہیں ، قربانی کے اصل مفہوم سے بے بہرہ ہوجاتے ہیں۔ اس مہینے کی قربانی سے باپ، بیٹے کی نظروں میں اطاعتِ الٰہی کی قیمت دیکھنے کو ملتی ہے کہ باپ اپنے مالکِ حقیقی اور بیٹا اپنے باپ کا کس قدر زبردست مطیع اور فرمانبردار ہے۔ بیٹے کو باپ کے حکم کا کس قدر خیال و احترام ہے کہ سب سے قیمتی شئے جان دینے کی بہترین اور عظیم قربانی کے ذریعہ باپ کے حکم کو دوام اور ہمیشگی عطا کرکے ایک نمونہ پیش کرکے باپ اور بیٹے نے پوری دنیا کو انگشت بدنداں کردیا۔ بیٹے کو باپ کے تئیں کیسا ہونا چاہیے ، یہ اسمٰعیل ؑ کی قربانے کے جذبے سے عبرت حاصل ہوتی ہے۔ جانور کی قربانی سے اللہ ہمارے اندر تقویٰ دیکھنا چاہتا ہے۔ جانور کی قربانی کے توسط سے اللہ بندوں کو معاملات میں قربانی دینے کا مزاج پیدا کرنا چاہتا ہے۔ معاملات کی پاسداری اور قربانی اقربا، احباب اور دوست اور پڑوسیوں سے منسوب ہے۔ معامکات میں قربانی دینے کا مطلب یہی ہے کہ ہمیں اپنا نقصان بھی کرنا پڑے تو ہم کر گزریں۔ لیکن فی زمانہ اس قسم کے جذبوں سے بنی نوع انسان عاری ہے۔
عید قراں ہمیں زندگی کے ہر معاملے میں قربانی دینا سکھاتی ہے کہ معاملات میں ہم ایک دوسرے کے کام آکر اور باہمی مددگار بن کر قربانی کے وسیع مفہوم سے غیروں کو بہرہ ور کریں اور خود بھی اسلام کو تقویت پہنچانے میں حصہ دار بن سکیں۔ لیکن ملال ہے کہ لاکھو، ہزاروں روپے کی قربانی پیش کرنے کے بعد ہم پھر سے اسی منافقت ، دروغ گوئی ، چُغلی،، غیبت ، شیخی، مفسدانہ رویّے میں مبتلا نظر آتے ہیں۔ نمازی، قربانی پیش کرنے والے اور حاجی بننے کے بعد ہممارے اطوار و معاملات میں جس شدّت سے اصلاح اور خوش سلیقگی آنی چاہیے، نہیں آتی۔ جس طرح نمازی بننے کے بعد ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ دلوں کے تمام خباثتوں اور بد گمانیوں کو دل سے بکال پھینکیں۔ ایک عام آدمی اور ایک نمازی، حاجی میں یہی فرق ہونا چاہیے کہ جو خامی اور بُرائی عام شخص میں ہو، وہی بُرائی نمازی اور حاجی میں نظر آنی چاہیے۔ ظاہر ہے اس قسم کی زندگی کے لیے نمازیوں اور حاجیوں کو مالی، خیالی اور جذبات کی قربانی دینا پڑتی ہے۔ لیکن نمازی اور حاجی بھی ایک غیر نمازی اور غیر حاجیوں کے شب و روز بھی منافقانہ طرزِ زندگی کو ظاہر کرے تو پھر قربانی پیش کرنے ، پنجگانہ نمازوں کی اور حج کی ادائیگی کا فائدہ ؟ جانور کی پیش کرنے کے بعد اللہ ہمیں اسی قسم کی بُرائی اور خباثت سے چھٹکارا پانے کا نام ” عید الاضححیٰ ” کی قربانی ہے۔ اللہ کے احکام کی تکمیل کے بعد بھی ہمارے اندر تقویٰ اور معاملات بندی کے اوصاف پیدا نہ ہوسکیں تو ایسی عیدالاضحیٰ کی قربانی سے ہم اللہ کی خوشنودی حاصل نہیں کرسکتے۔ شاعر نے ٹھیک ہی کہا ہے
” لوگ آساں سمجتے ہیں مسلماں ہونا”
اللہ ہمیں اطاعتِ الٰہی کاشوق و جذبہ اور ہمارے معاملات کو خوشگوار ساعتوں سے ہم آہنگ کرے۔
Leave a Reply