تازہ ترین / Latest
  Saturday, January 11th 2025
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

قوموں کی ترجیحات

Articles , Snippets , / Monday, December 30th, 2024

از قلم ۔۔۔۔ عامرمُعانؔ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لمحات بہت زیادہ تناؤ کا شکار ہو چکے تھے ، آخری گیند ہونے والی تھی اور اس پر 3 رنز درکار تھے ، آخری بیٹسمین کھیل رہا تھا۔ میچ کسی طرف بھی جا سکتا تھا ، سب کے ہونٹوں پر دعائیں تھیں کہ یااللہ پاکستان جیت جائے ۔ بالر گیند کرنے کیلئے دوڑنے لگا تھا ، سب آنکھیں جھپکائے بغیر ٹی وی اسکرین پر نظریں جمائے دل ہی دل میں دعائیں کر رہے تھے اور یکدم گیند بیٹسمین کے بلے کو چھوتی ہوئی تیزی سے بانڈری پار کر گئی۔ پاکستان جیت چکا تھا اور خوشی ہر کسی کے رگ و پے سے جھلک رہی تھی سب بہت خوش تھے ۔ امی نے جب سب کو اتنا خوش دیکھا تو کہا جا بیٹا سب کے لئے پھر مٹھائی ہی لے آ ، سب کتنے خوش ہیں اور اس طرح خوشی جم کر منائی جائے گی ۔ سب نے بیک آواز اس تجویز کی بھر پور تائید کی اور لو جی یوں ہم خراماں خراماں امی سے پیسے لے کر چل پڑے کہ آج جیت کا جشن زبردست طریقے سے منایا جائے گا ۔
بازار جاتے ہوئے راستے میں مجھے اپنا پرانا دوست خضر نظر آ گیا ، خضر اور میں اسکول میں ساتھ ہی پڑھتے تھے اور وہ کلاس کے ذہین طلباء میں شمار ہوتا تھا ۔ تمام اساتذہ کرام اس کی بہت تعریف کرتے تھے اور ان کو یقین تھا کہ یہ بڑا ہو کر خوب ملک اور قوم کا نام روشن کرے گا ، کلاس میں موجود ہر لڑکے کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ خضر سے دوستی کرے تاکہ اس کے نوٹس سے استفادہ حاصل کر کے امتحان میں اچھے نمبر لے سکے ۔ خضر بھی بہت ہنس مکھ اور بہت اچھا لڑکا تھا سب اساتذہ کی تعظیم کرتا اور سب سے اخلاق سے پیش آتا ۔ پھر ہم سب نے دسویں کلاس کا امتحان پاس کیا اور اسکول کو خداحافظ کہہ کر الگ الگ کالجز میں داخلہ لے لیا۔ خضر نے دسویں کا امتحان بہت اچھے نمبروں سے پاس کیا تھا لیکن چونکہ میرا داخلہ کسی اور کالج میں ہو گیا تھا تو پھر ہماری ملاقات کا سلسلہ موقوف ہو گیا ، اور آج اتنے دن بعد اچانک بازار میں خضر سے ملاقات ہو گئی تھی ۔
میں نے دور سے آواز لگائی کہ خضر تم کہاں غائب ہو گئے تھے کوئی خیر خبر ہی نہیں ، اور یہ حلیہ کیا بنایا ہوا ہے ، پہلی بار میرا دھیان خضر کے حلیے پر گیا تھا میلے کپڑے پہنے وہ کوئی دھیاڑی مزدور لگ رہا تھا۔ خضر آنکھیں چراتے ہوئے بات بدلنے کی کوشش کرنے لگا لیکن میں اس کو لے کر قریبی ہوٹل میں چلا گیا اور پوچھنے لگا بتاؤ کیا ہوا ہے ؟ اس نے بتایا کہ دسویں جیسے ہی پاس کی تھی ، اس کے والد کو دل کا دورہ پڑا اور ان کا انتقال ہو گیا ۔ اب وہ کوئی مالدار تو تھے نہیں سو امی گھروں میں کام کاج کرنے لگیں اور کالج کی فیس دینا مشکل ہو گیا اب کوئی بغیر پیسوں کے پڑھانے کو تیار نہیں اور پیٹ فاقے کو تیار نہیں سو مزدوری کرنے لگا ہوں اور بس اب اسی طرح گزر بسر ہو رہی ہے ۔
میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی ، ملکی نامساعد حالات نے ایک ذہین دماغ اس ملک سے چھین لیا ہے جس کی فکر ارد گرد موجود کسی انسان کو نہیں ہے ۔کسی کو یہ اندازہ نہیں ہے کہ یہ کتنا بڑا نقصان ہو چکا ہے ۔ ہم اپنے ہاتھوں ملک کے ہیرے مٹی میں رول رہے ہیں اور کوئی نظر نہیں جو جوہری بن کر ان کو پرکھے۔
میری ساری خوشی تفکرات میں ڈھل چکی تھی ہمیں ایک جھوٹی خوشی کی تخیلاتی دنیا میں ڈال کر حقیقی دنیا سے دور کیا جا رہا ہے ۔ یہ ایک میچ جیتنے کی خوشی کیا ملک کے تمام مسائل حل کر سکتی ہے ؟ کیا کل سے اس جیت کے بعد مہنگائی کم ہو جائے گی ؟ ملکی ترقی کا کوئی راز مل جائے گا ؟؟ اور خوشی بھی وہ جو چند دن بعد کسی ہار کے نتیجے میں پھر غصے میں بدل جائے گی، تو نہ یہ خوشی دائمی ہے نہ وہ غم دائمی ہو گا تو اس کا کیا فائدہ ہے ؟؟ سوائے اس کے کہ عوام کو اس کے اصل مسائل سے کچھ وقت کے لئے غافل رکھا جائے ۔
لیکن سوچیں کہ اگر یہی پیسہ درست ترجیحات کے ساتھ ان ذہنوں پر خرچ کیا جائے جو صرف ایک دن کی خوشی نہیں ہمیشہ کی ترقی کی راہ میں سنگ میل بن جائیں گے تو کیا وہ دائمی خوشی ہمارا نصب العین نہیں ہے ؟؟
جاپان کتنے کھیلوں کا چمپئین ہے ؟ لیکن اسے ایک ذہین قوم کے طور پر تعظیم دی جاتی ہے اور وہ اپنے لوگوں کے دماغ سے فائدہ اٹھا کر دنیا پر راج کر رہا ہے ۔ اسرائیل جس کی مثالیں زبان زد عام ہیں کہ کس طرح اپنے لوگوں کو تیار کر رہا ہے تو وہ ذرا سوچیں وہ کیا تیاری کر رہا ہے ؟ کیا وہ کھیلوں میں نمبر ون ہے؟ نہیں بلکہ وہ دنیا کی ترقی سے اپنا حصہ اپنے ذہین لوگوں کے ذریعے لے رہا ہے ، دنیا کی ایجادات و دریافت میں وہ دیگر ترقی یافتہ ممالک کے ساتھ شامل ہے اور یہی اس کی ترقی کا راز ہے ۔ ایسی بے شمار مثالیں بتانے کی ضرورت ہی نہیں ہے کہ تمام ممالک کا مشاہدہ تو اب گوگل پر سرچ کر کے کیا جا سکتا ہے ، لیکن کیا کبھی یہ ہماری ملکی ترجیحات میں شامل رہا ہے کہ اسکولوں کی سطح پر موجود ان ذہین بچوں کو اسکول سے ہی منتخب کر کے اور پھر حکومتی ذرائع سے اعلی تعلیم دے کر ملک کے مختلف شعبوں میں بہترین کام کے مواقع دئے جائیں اور وہی ترقی ہم بھی حاصل کر سکیں جو دیگر ممالک حاصل کر رہے ہیں ۔
کھیلوں سے دوری کی رائے کوئی نہیں دیتا لیکن ترجیحات کی رائے ضرور دی جاتی ہے اور جب آپ اچھے ذہن بنائیں گے تو ساتھ ساتھ اچھے تندرست جسم بھی بن جائیں گے۔
ارد گرد نظر دوڑائیں کتنے خضر جو روشن ترقی کا چراغ لے کر نکلے تھے یونہی نامساعد حالات کا شکار ہو کر تاریک راہوں میں پھر رہے ہیں ، جو اگر یوں ضائع نہ ہوتے تو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ملک کا نام روشن کر رہے ہوتے اور وہ روشنی چند لمحوں کی نہیں بلکہ دائمی ہوتی۔
دنیا سے مقابلہ کرنا ہے تو علم و ترقی کے میدان میں کیجئیے دنیا پر ثابت کیجئیے کہ ہم ایک ذہین قوم ہیں جو ہر میدان میں اپنا لوہا منوانا جانتے ہیں ۔ ایجادات و دریافت پر پاکستان کا نام کندہ کروا کر دنیا کے سامنے پیش کریں آگے کی ٹیکنالوجی میں پاکستان کا پرچم بلند کر کے دکھائیں تاکہ عوام کو آپ خوشحالی کی نوید سنا سکیں۔ کھیل تو تفریح طبع کے لئے ہوتے ہیں تاکہ قومیں خود کو کچھ دیر سکون دے کر پھر کام میں لگ جائیں ۔کھیل کو میدان جنگ بنانے والے علم کے میدانوں میں بہت پیچھے رہ جاتے ہیں۔
ملک کی ترقی حکومتوں کی ترجیحات طے کرتی ہیں وگرنہ کوئی بات نہیں ، چلیں سب بھول کر ایک میچ جیتنے کی خوشی مناتے ہیں جو دائمی نہیں ہے اور اگلی ہار اس جیت کا نشہ ہرن کرنے میں کچھ زیادہ دیر نہیں لگائے گی ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International