تحریر ناز پروین
نوٹ اس کالم کو خالی پیٹ پڑھنے سے گریز کریں۔
رمضان کی آمد آمد ہے ۔عبادات کے ساتھ ساتھ یہ مہینہ اپنے لذیذ پکوانوں کے لیے بھی بڑی اہمیت رکھتا ہے۔جیسے افطار میں روح افزا اور پکوڑے لازم و ملزوم ہیں ویسے ہی سحری میں گرما گرم پراٹھے۔۔بچوں نے فرمائش کی کہ اس بار رمضان میں لچھے دار پراٹھے بنائیں گے ۔لو جی پھر کیا تھا ہم نے آنٹی یوٹیوب سے مدد مانگی۔۔ جس پر ایک نہیں لچھے دار پراٹھوں کی درجنوں تراکیب موجود تھیں۔ انڈیا پاکستان بنگلہ دیش نیپال کینیڈا یورپ اور امریکہ سے بے شمار بیبیاں بلکہ مرد حضرات کی بھی رنگا رنگ پراٹھے بنانے کی ویڈیوز مل گئیں۔پراٹھوں کے لچھوں میں جو کشش ہے وہ محبوب کی گھنگریالی زلفوں سے کچھ کم نہیں۔دونوں ہی مدہوش کر دیتے ہیں ۔میر صاحب سے معزرت کے ساتھ
ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے
سب لچھے دار پراٹھے کے اسیر ہوئے
۔پراٹھا چیز ہی ایسی ہے کہ چھوٹے بڑے ہر عمر کے لوگ بہت شوق سے کھاتے ہیں۔اور پھر ایک پراٹھے سے تو جی نہیں بھرتا۔۔محبوب کے وصل کی مانند ۔۔۔پتہ ہی نہیں چلتا کب ختم ہوا ۔۔ایک پراٹھا کھا کر دوسرے کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہیں توغالب سے معذرت کے ساتھ
میں نے پراٹھے کی خوشبو کے زیر اثر
ہاتھ بڑھایا تھا کے وزن یاد آیا
جی بچپن میں تو باورچی خانے میں ہی ماں کے ارد گرد ہم سب بہن بھائی بیٹھ جاتے توے پر سے گرم گرم پراٹھے اترتے جاتے اور ہم کھاتے جاتےوہ بھی دیسی گھی میں نچڑتے ہوئے ۔۔نہ ماں پکاتے تھکتی اور نہ ہم کھاتے۔گرم گرم پراٹھوں کی خوشبو کسے مدہوش نہیں کرتی۔امی کا کہنا تھا کہ کبھی گن کر روٹی نہیں بناتے برکت نہیں رہتی لیکن اب تو یہ حال ہے کہ مہمانوں سے بھی پوچھا جاتا ہے آپ کے لیےکتنی روٹی بنائیں۔۔ ماں پراٹھے بناتی جاتی اور ہم کھاتے جاتے۔۔۔
۔۔لیکن اب تو کمرے میں رکھی وزن کی مشین ایک جلاد کی مانند تلوار لٹکائے سر پر سوار رہتی ہے۔ اس کے بھی کیا کہنے ۔وہ کہتے ہیں نہ کہ بے خبری ۔لاعلمی بھی ایک نعمت ہے ۔جب سے میاں صاحب (مراد ہے میرے شوہر آپ دوسرے والے میاں صاحب کا نہ سوچیے گا جن کو اب تک گلہ ہے کہ مجھے کیوں نکالا) نے یہ تحفہ دیا ہے دن رات کی پریشانی گلے پڑ گئی ہے ۔صبح اٹھ کر پہلے وزن چیک کرتے ہیں اس امید پر کہ شاید سوئی کچھ ترس کھا کر پیچھے کی جانب سرک جائے مگر جناب یہ آئی ایم ایف کی طرح دن بدن ترقی کی جانب گامزن رہتی ہے اور ہم سٹپٹا کر اسے کوستے ہیں کہ یہ گھٹیا مشین غلط اعداد و شمار دکھلاتی ہے بالکل ہمارے وزیر خزانہ کی طرح ۔۔کچھ میاں صاحب کی نیت پر بھی شک گزرا کہ ایسا تحفہ دو کہ دن رات اسی میں الجھی رہے اور ان کی زندگی سہل ہو جائے خیر اب تو ہم اس مشکل کے اسیر ہو چکے ہیں ۔کچھ خوش ذوق احباب بھی مشورہ دیتے ہیں کہ چار دن کی زندگی ہے خوب جی بھر کر کھاؤ پیو ۔۔اب بھلا ہو ان سائنس دانوں کا جن کی سائنس ہر چند سالوں کے بعد اپنے نتائج بدلتی رہتی ہے ہمیں بتایا گیا کہ پراٹھے مت کھائیں ناشتے میں ڈبل روٹی کا سلائس لیں۔پہلے دیسی گھی کو شدید نقصان دہ بتلایا گیا ساری قوم کو کوکنگ آئل پر لگا دیا گیا یہاں تک کہ ہم نے ہنڈیا پکانے کے ساتھ ساتھ پراٹھے بھی کوکنگ آئل میں بنانا شروع کر دیے لیکن اب ایک بار پھر وہی لوگ وہی حکیم وہی ڈاکٹر پھر سے دیسی گھی کے گن گانے لگے ہیں ۔فیس بک پر بیبیاں بیٹھی بتا رہی ہیں کہ دیسی گھی وزن میں کمی لاتا ہے دل کے لیے بہت اچھا ہے کوکنگ آئل بہت نقصان دہ ہے ۔ایک حکیم صاحب ٹی وی مارننگ شو میں بتا رہے تھے کے ڈبل روٹی کے سلائس پر مکھن جیم لگا کر کھانا ہے تو اس سے بہتر ہے دیسی گھی کا پراٹھا کھائیں جس سے آپ صحت مند بھی رہیں گے اور وزن بھی کم ہوگا ۔ان کی باتیں سن کر ہمارا یہ حال ہوا کہ
۔۔۔۔نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے ہوئے نہ اُدھر کے ہوئے
خیال کیا جاتا ہے کہ پراٹھوں کی ابتدا مغل بادشاہ نور الدین جہانگیر کے دور حکومت میں ہوئی ۔عادل حافظ عثمان نامی اس کے مشہور باورچی کا تعلق مغربی بنگال سے تھا۔اس نے پراٹھا ایجاد کیا ۔وہاں سے پراٹھا سفر طے کرتا ہوا مرشد آباد اور ڈھاکہ سے مغربی بنگال کے کولکتہ تک آن پہنچا ۔جہاں یہ عام اور مقبول ناشتہ بن گیا۔۔پراٹھا سالن چنے حلوہ ملائی انڈا شکر شہد کے ساتھ کھایا جاتا ہے۔یا پھر اکیلا ہی چائے کے ساتھ بے حد مزہ دیتا ہے۔اسے اردو میں پراٹھا پنجابی میں پرونٹھا بنگالی میں پروٹا برما میں پولاٹا سری لنکا مالدیپ اور موریشس میں اسے فراٹہ کہا جاتا ہے جیسے موٹر فراٹے بھرتی جاتی ہے۔سعودی عرب افغانستان مشرق وسطیٰ میں اسے فطیرہ کہا جاتا ہے ۔نام چاہے کچھ ہو پراٹھے کی لذت اپنی جگہ برقرار ہے جسے دیکھ کر دل کی دھڑکنیں بکھر جاتی ہیں بقول شاعر
کس نام سے پکاروں کیا نام ہے تمہارا
کیوں تم کو دیکھتے ہی دل کھو گیا ہمارا
پراٹھے توے اور تندور دونوں پر بنائے جا سکتے ہیں۔پراٹھے ہمارے بر صغیر کے کلچر کا حصہ ہیں ۔ہمسایہ ملک بھارت میں تو پراٹھے بڑے شوق سے کھائے جاتے ہیں ۔لیکن ان کے پراٹھوں کا سائز اتنا چھوٹا ہوتا ہے کہ شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جاتے ہیں۔
پراٹھوں کی مختلف قسمیں اور ذائقے ہوتے ہیں۔یہ گول چوکور تکونی شکلوں میں بنائے جاتے ہیں ان کو بنانے والے جیومیٹری بھی سیکھ لیتے ہیں۔جبکہ جغرافیہ سیکھنے میں بھی کافی مدد دیتے ہیں کیونکہ نئی نئی کوکنگ سیکھنے والی بچیاں اور دلہنیں جب پراٹھے بناتی ہیں تو دنیا کے مختلف ملکوں سے ملتے جلتے نقشے بناتی جاتی ہیں۔جہاں تک ذائقوں کا تعلق ہے تو ایک نیا جہاں اپنے دروا کر دیتا ہے۔آلو والے قیمہ بھرے میتھی کے پراٹھے اچاری پراٹھے چکن کے پراٹھے گوبھی کے پراٹھے دال کے پراٹھے اور نہ جانے کیا کیا۔۔پہلے تو مائیں اکثر رات کو بچے ہوئے ساگ دال اور سبزی کے پراٹھے بنا دیا کرتی تھی چونکہ اس زمانے میں فوڈ پانڈا نہیں تھا اور رزق کو ضائع کرنا گناہ سمجھا جاتا تھا اس لیے بچے ہوئے سالن کو ہر حالت میں استعمال کیا جاتا تھا۔بچپن میں پسند کا کھانا نہ ملنے پر ضد کرتے تو ماں پراٹھے کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑے کر کےانگلیوں سے مسل کر چینی ڈال کر چوری بنا کر کھلاتی تھی اس چوری میں زیادہ لذت ماں کی انگلیوں کے لمس کی تھی۔جبکہ گرمیوں کی لمبی دوپہروں کے بعد سہ پہر کو شدید بھوک لگ جاتی توپراٹھے میں چینی بھر کر مزیدار میٹھا پراٹھا بنایا جاتا جسے رول کر کے کھاتے ۔اس چوری اور میٹھے پراٹھے کے آگے دنیا بھر کے تمام ذائقے ہیچ ہیں۔
۔پراٹھے ہماری ثقافت میں رچے بسے ہیں ۔ ان سے وابستہ بہت سے محاورے کہاوتیں بھی ہیں جیسے پنجاب کی بڑی مشہور کہاوت ہے
رناں والیاں دے پکن پرونٹھے
تے چھڑیاں دی اگ نہ بلے
یعنی شادی کے فائدے بتائے گئے ہیں کہ شادی شدہ لوگوں کو تو بیویاں پراٹھے تل کر دیتی ہیں جبکہ کنوارے لوگوں سے تو چولہے کی آگ بھی ڈھنگ سے نہیں جلتی۔۔۔پردیسی بھی گھر کے پکے پراٹھوں کو یاد کر کے آہیں بھرتے۔لیکن جناب یہ گئے دنوں کی باتیں ہیں اب تو نہ صرف ملک میں بلکہ بیرون ملک امریکہ یورپ کینیڈا مشرق وسطیٰ کے سبھی ممالک میں فروزن پراٹھے دستیاب ہیں۔ نہ صرف سادہ بلکہ لچھے دار اور مختلف قسم کی سبزیوں سے بھرے بھی.بس فریزر سے پراٹھے اٹھائیں گھر لا کر فرج میں رکھ دیں.پھر مائیکرو ویو میں یا توے پر ڈال کر تل لیں کم از کم پراٹھوں کے لیے تو اب گھر والی کی ضرورت نہیں رہی.اب کنوارے بھی آرام سے پراٹھے بنا سکتے ہیں اسی طرح پرانے زمانے میں ایک بڑا مشہور محاورہ تھا کہ ساسو ماں بہو کو ڈانٹنے کے لیے بہانے ڈھونڈتی رہتی تھی جب کچھ بھی ہاتھ نہ آتا تو بہو رانی کو کہہ دیتی
آٹا گوندھتے ہلتی کیوں ہو
اسی طرح آٹا گوندھتے اگر تھوڑا سا آٹا اچھل کر پرات سے باہر گرتا تو کہتے مہمان آنے والا ہے
لیکن جناب یہ پرانے زمانے کی باتیں ہیں اب تو تقریباً ہر گھر میں آٹا گوندھنے کی مشین دستیاب ہے.اب نہ تو آٹا اچھلنے کا امکان ہے اور نہ بہو کے ہلنے پر اعتراض۔۔شاید اسی لیے مہمانداری میں بھی کمی آگئی ہے ۔۔۔
اکثر پراٹھے ناشتے میں کھائے جاتے ہیں لیکن کراچی والوں کے کیا کہنے وہ تو رات کے وقت کباب کڑاہی کے ساتھ پراٹھے کھاتے ہیں حیرت اس بات کی کہ موٹے پھر بھی نہیں ہوتے۔کمپیوٹر جہاں زندگی کے ہر رخ پر چھایا ہے وہیں پراٹھے بھی اس کی دست برد سے محفوظ نہیں رہے ۔ملتان میں کمپیوٹر پراٹھا ایجاد ہوا جی ہاں کمپیوٹر پراٹھا ۔مچھلی قیمے مرغی آلو شکر کے مصالحے دار اور میٹھے ذائقے کو ایک ہی پراٹھے میں تل کرکمپیوٹر پراٹھا بنایا جاتا ہے ذائقوں کی رہی صحیح کسر اس پر فرائی انڈے اور ٹماٹر وغیرہ سے پوری ہو جاتی ہے ۔اب ایک زرخیز ذہن نے نام اس کا کمپیوٹر پراٹھا رکھ دیا۔جب کہ ہمارے نزدیک اس کو پاگل پراٹھا کہنا چاہیے ۔جی اب آپ پر منحصر ہے کہ آپ کون سا پراٹھا شوق سے کھاتے ہیں لیکن مفت مشورہ ہے کہ موقع غنیمت جانیے نئی تحقیق سے فائدہ اٹھائیں اور دیسی گھی کے پراٹھوں سے دو دو ہاتھ کر لیں اس سے پہلے کہ کوئی اور سائنس دان حکیم ڈاکٹر اپنی تحقیق سامنے لے آئے اور ایک بار پھر پراٹھوں پر پابندی عائد ہو جائے۔
Leave a Reply