تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

ماں کا انگ انگ زخمی ہے

Articles , Snippets , / Thursday, August 15th, 2024

دردزہ کی کٹھنایوں کے پہاڑ کو سر کر کے امت الصبور جس پل ماں کے عہدے پہ براجمان ہوی ننھے منھے بالک کی زور دار چیخ سارے میں گونجی تو پورے پریشان ماحول میں یکمشت ہی سکون کی ٹھنڈی ہوا لیبر روم میں موجود ہر نفس کو اپنے دل و جاں میں سرایت کرتی ہوی محسوس ہوی. انگارے برساتے سورج کی حدت میں جھلسنے کے بعد شجر سایہ دار میں آ
جانا جیسے جان لیوا درد مسلسل کے عذاب سے یک دم صحت کے دھارے میں بہنا شروع ہو جانا
انتہاے درد تھی انتہاے خوف میں
انتہاے خوف سے ہم سکوں میں آ گیے
بے بسی کے راگ سے ہم جنوں میں آ گیے
زندگی اور موت جس طرح ساتھ ساتھ چلتی ہیں زندگی میں دکھ اور سکھ بھی بالکل ایسے ہی ساتھ ساتھ چلتے ہیں ایسا ہو نہیں سکتا کہ ایک ابر قمر آپ پہ مستقل اپنا ہالہ کیے رکھے اور آپ زندگی کے صرف ساز ہی کے مزے اٹھاتے رہیں اور سوز آپ کو چھو کے بھی نہ گزرے زندگی تو سوز اور ساز ہے، خزاں اور بہار ہے، ہجر و وصل ہے بادشاہ کے محل کے سنگ فقیر کا مکان ہے کبھی صبح ہے تو کبھی شام ہے مستقل کسی کا نہ یہاں قیام ہے. خیر امت الصبور نے درد زہ سے فراغت پاتے ہی نرس سے پہلا سوال یہ پوچھا کیا وقت ہوا ہے نرس نے مسکراتے ہوئے کہا دس بج کر گیارہ منٹ اب یہ دس بج کر گیارہ منٹ امت الصبور کے دماغ پہ مانو نقش ہو گیے بھلا کیوں یہ ماں کی محبت ہے ماں کی محبت خالص سونے جیسی پر خلوص اور بے ریا ہوتی ہے یہ محبت ننگے پاوں آبلہ پای کے سنگ پہ بھی اپنے جگر گوشوں کے تمام ناز اٹھاتی ہے انھیں سکھ دینے کے لیے اپنے آپ کو غم کی بھٹی میں جھونکنے سے بھی دریغ نہیں کرتی اور پلکوں پہ کانٹے چن کے بھی اپنے بچوں کی خوشیاں منانے والی ہستی کو ماں کہتے ہیں، کل جہاں کہتے ہیں. ماں کو اس بات سے چنداں غرض نہیں ہوتی کہ اس کے جسم پہ کیسے کپڑے ہیں لیریں پہن کے ٹوٹے جوتوں اور بھوکے پیٹ گزار دینے والی ماں اپنے بچوں کی سالگرہ کا دن یاد ہی نہیں رکھتی مناتی بھی ہے. اور سالگرہ کا دن ہوتا تو عام دنوں کے جیسا ایک دن ہی ہے لیکن اگر کوئی آپ کے خاص دن کو یاد ہی نہ رکھے بلکہ آپ کے اس خاص دن کو منانے کے جتن بھی کرے تو پھر وہ بھی آپ کے لیے خاص ہی ہو جاتا ہے میرا ہی ایک شعر ہے
Happy birthday
ایک دن تھا گزر ہی جانا تھا
آپ کا یاد کرنا…..اچھا.. لگا
شہر کے جھوٹ میں مجھے پونم
پھول کا کھلنا بکھرنا اچھا لگا
انسان کا نام اور پہچان یہ دو چیزیں ہی ہر کسی کی کل متاع اور کل جہان کہلاتی ہیں جیسے ہم سب دھرتی ماں کی آغوشِ الفت سے نمو پا کے جب پوری دُنیا کے سامنے پیش ہوتے ہیں تو ہم سب پاکستانی ہیں ہمارا ملک ہمارا نام ہے ہمارا مان ہے ہماری شان ہے اور کل پہچان ہے دنیا کے جس کونے میں بھی چلے جائیں ہم سب پاکستانی ہیں. الحمدللہ. اس مالک کا احسان ہے اور ہمارے پرکھوں کی قربانیاں، ہمارے لیڈروں کی حکمت اور شعور کہ انہوں نے برصغیر پاک و ہند کے پسے ہوے مسلمانوں کو ان کے رہنے سہنے کے ایک علیحدہ خطہ مملکت بہت سارے اور مختلف افکار و اذہان کے لوگوں سے ایک قطعہ اراضی با ضابطہ طور پہ حاصل کرنا آسان کام نہ تھا مگر بہت ساری کٹھنایوں، جلسے جلوسوں، باہمی گفت و شنید کے بعد قابض برطانوی سامراج کو اور کوئی چارہ دکھائی نہ دیا خیر انھوں نے ہندو سامراج کی طرف کافی زیادہ رحجان دکھاتے ہوئے اور مسلم امہ کو حتیٰ الامکان کھڈے لین لگاتے ہوے پاکستان کی تقسیم مشرقی اور مغربی دھروں میں اس طرح کی کہ ملک ایک تھا اور اس کے دو نوں حصے ایک دوسرے سے ہزاروں میلوں کی دوری پہ تھے. اور چودہ اگست 1947، ستائیسویں رمضان کو دنیا کے نقشے پہ معرض وجود میں آنے والی پہلی نظریاتی مملکت جس کے مشہور زبان زد عام نعرے تھے.
پاکستان کا مطلب کیا، لاالہ الا اللہ
یا پھر
لے کے رہیں گے پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان
نوجوانوں، بچوں، بزرگوں، خواتین اور بچیوں سب بے مل کر جدوجہد آزادی میں بھر پور حصہ لیا اور ہجرت کے وقت ماہر سیاسی چالیں اس طرح سے چلی گییں کہ گھر میں رہنے والے ہی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہو گیے لاکھوں لوگوں کے خون سے ہجرت کے نام پہ کھلوار کیا گیا.
چلی ہے دشمنوں نے چال ایسی
کہ اپنوں میں ہی جھگڑا ہو رہا ہے
لٹے پٹے قافلے جو جان و مال کی قربانی دے کر ادھر سے ادھر اور ادھر سے ادھر آے تھے مروت اور محبت میں مارے گءے. اور لٹیرے،بے ایمان، جھوٹے، دغاباز مملکت کی پیدائش کے ساتھ ہی میدان میں اتر آے. ہر ہر میدان میں ہر ہر جگہ پہ، ہر ہر مسام کو زخمی کیا گیا، نوچا گیا ،برباد کیا گیا اہل وطن کو کمی کسی شے کی نہ تھی مگر اس ناہجاز قوم میں ہر قوم کی برائیاں اکٹھی ہو گءی تھیں
قوم لوط کی برائیاں
قوم نوح کی برائیاں
قوم ثمود کی برائیاں
ناپ تول میں کمی بیشی، ملاوٹ، ہیرا پھیری، ذخیرہ اندوزی، جھوٹ بہتان،رشوت، سفارش، میرٹ کی دھجیاں بکھیر کر اہلیت کے جنازے جتنے مملکت خداداد میں نکالے گیے ہیں کہیں اور اس کا اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا. یہاں شہنشاہیت کا مزاج اتنا شاہانہ ہے کہ ایک پروفیسر اگر اپنی سیٹ خالی کرتا ہے تو اسے اپنے ہی کسی رشتہ دار سے پر کروانا عین عبادت سمجھتا ہے بادشاہت بھی چند ایک گھرانوں کے گھر کی باندی ہے وہی چہرے بدل بدل کر ملک کا سوا ستیا ناس مارنے کے لیے آگے آگے ہیں .
چہرے بدل بدل کے مجھے مل رہے ہیں لوگ
اتنا برا سلوک میری سادگی کے ساتھ
محسن نقوی
14 اگست 2024 بروز بدھ کو منایے جانے والے ستہتریویں یوم آزادی کو اگر لفظوں میں بیان کیا جاے تو کچھ یوں ہو گا گرمی، حبس، سازشی لہجے، سازشوں میں گھری ہوی پور پور زخمی دھرتی ماں جس کے ایک حصے کو پیدائش کے صرف تییس برس بعد ہی جدا کر دیا گیا تھا اور ابھی بھی اس چار صوبوں کی دھرتی کے چار شیر جوان اس طرح آپس میں گھتم گتھا ہیں کہ دکھیاری اور پور پور زخمی ماں کی راتوں کی نیندیں تک حرام ہو چکی ہیں. مہنگائی کا جن قابو سے باہر ہو چکا ہے امرا اور روسا موج در موج میں ہیں اور نچلا اور متوسط طبقہ چکی کے دو پاٹوں میں بری طرح سے پس رہا ہے. بے لگام ٹیکسوں نے لوگوں کی مت ہی مار دی ہے مگر چودہ اگست کو لوگوں نے سبز اور سفید ملبوسات اور سبز ہلالی جھنڈوں کی بھر مار کے ساتھ ساتھ جس چیز پہ سب سے زیادہ توجہ دی وہ چھوٹے، بڑے باجے تھے ہاں چند باشعور عوام نے باجوں کے بجائے پودے لگانے کی اہمیت بھی اجاگر کی مگر جابجا بے سرے باجوں نے اس بات کا احساس شدت سے دلایا کہ قوم ابھی شعور سے کوسوں دور ہے ہاں اس یوم آزادی پہ راشد ندیم نے جیو لن تھرو میں گولڈ میڈل حاصل کر کے قوم کو بیدار کیا تمام اہل وطن کو بیداری کی دعا کے ساتھ ستترہواں یوم آزادی مبارک ہو
14 اگست 2024 بروز بدھ


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International