Today ePaper
Rahbar e Kisan International

مجسمہ سازی اور جدید AI ٹرینڈ ایک دینی و فکری جائزہ

Articles , Snippets , / Sunday, September 14th, 2025

rki.news

تحریر: شازیہ عالم شازی

آج کل سوشل میڈیا پر ایک نیا رجحان دیکھنے میں آرہا ہے۔ ہر دوسرا شخص اپنے “مجسمے” یا “3D AI ورژن” بنوا کر اسٹیٹس یا پروفائل پر لگاتا ہے۔ بظاہر یہ ایک تفریح یا فنکاری معلوم ہوتی ہے، مگر اس کے پس پردہ کئی سنجیدہ سوالات جنم لیتے ہیں:
کیا ہم اپنی شکل و ساخت کو دنیا کے کسی اور حصے میں ریکارڈ نہیں کروا رہے؟
کیا مستقبل میں اس کا غلط فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے؟
اور سب سے بڑھ کر یہ کہ، کیا اسلام میں اس کی اجازت موجود ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ انٹرنیٹ کی دنیا میں ہمارا بہت سا ذاتی ڈیٹا پہلے ہی محفوظ ہے۔ فنگر پرنٹس، آئی رس اسکین اور دیگر بایومیٹرک معلومات اکثر ریاستی اداروں اور ٹیکنالوجی کمپنیوں کے پاس موجود ہوتی ہیں۔ لیکن اب جب ہم اپنی مرضی سے اپنے چہرے یا جسم کا حقیقی 3D ماڈل AI کے ذریعے بنوا رہے ہیں، تو ہم نہ صرف اپنی پہچان دنیا کے سامنے رکھتے ہیں بلکہ مستقبل میں اس کے ممکنہ غلط استعمال کے دروازے بھی کھول دیتے ہیں۔
اسلام میں جاندار کی تصاویر اور مجسمے ہمیشہ ایک حساس موضوع رہے ہیں۔
قرآن ہمیں سابقہ اقوام کا واقعہ سناتا ہے کہ انہوں نے اپنے نیک بزرگوں کے مجسمے بنائے، اور وقت گزرنے کے ساتھ انہی کو پوجنا شروع کردیا۔
“اور انہوں نے کہا: اپنے معبودوں کو نہ چھوڑو، نہ ودّ کو چھوڑو، نہ سواع کو، نہ یغوث کو، نہ یعوق کو اور نہ نسر کو۔” (سورہ نوح: 23)
اسی طرح احادیث میں بھی واضح طور پر جاندار کی تصاویر اور مجسمہ سازی سے منع کیا گیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“قیامت کے دن سب سے سخت عذاب ان لوگوں کو ہوگا جو تصویریں بنایا کرتے تھے۔” (بخاری و مسلم)
یہاں سوال یہ ہے کہ اگر روایتی معنوں میں مجسمہ سازی ممنوع ہے تو جدید “AI مجسمہ سازی” کو کس درجے میں رکھا جائے؟
یقیناً AI ٹیکنالوجی نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔ مگر اسلام میں ہر نئی ایجاد کو پرکھنے کا معیار یہ ہے کہ کیا یہ شریعت کے اصولوں کے مطابق ہے یا ان کے خلاف؟ اگر تصویر اور مجسمہ سازی جاندار کی ہو اور مقصد محض تفریح یا خودنمائی ہو، تو یہ کم از کم “مشکوک امور” میں ضرور شامل ہوگا۔ دین ہمیں شبہات سے بھی بچنے کی تعلیم دیتا ہے تاکہ ہم اصل گناہ سے محفوظ رہیں۔
قدیم اقوام کے مجسمے بھی ابتدا میں یادگار سمجھے جاتے تھے، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ وہ شرک کا ذریعہ بن گئے۔ کیا بعید ہے کہ آج کی یہ “ڈیجیٹل مجسمہ سازی” کل کو کسی نئے فتنہ یا خطرے کی بنیاد نہ بن جائے؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
“شیطان تمہیں فقر سے ڈراتا ہے اور بے حیائی کا حکم دیتا ہے، اور اللہ تمہیں اپنی مغفرت اور فضل کا وعدہ دیتا ہے۔” (البقرہ: 268)
لہٰذا فیشن یا ٹرینڈ کی اندھی پیروی کرنے کے بجائے ہمیں سوچ سمجھ کر قدم اٹھانا چاہیے، تاکہ نہ دنیا میں نقصان اٹھائیں اور نہ آخرت میں عذاب کے مستحق بنیں۔
آخر میں سوچنے کا سوال یہ ہے کہ آخر اس پورے رجحان کے پیچھے کیا عوامل یا سازش کارفرما ہو سکتے ہیں؟
کیا یہ نئی “ڈیجیٹل غلامی” کی تیاری ہے تاکہ انسان اپنی شناخت ٹیکنالوجی کے رحم و کرم پر چھوڑ دے؟
کیا یہ ہماری بایومیٹرک معلومات اور مکمل جسمانی شناخت کو مزید کنٹرول کرنے کی عالمی کوشش ہے؟
کیا یہ محض ایک “فیشن” نہیں بلکہ ذہنی و فکری سطح پر انسان کو بتدریج تصویر پرستی کی طرف لے جانے کا نیا ہتھکنڈہ ہے؟
یا پھر یہ ایک ایسا راستہ ہے جس کے ذریعے آنے والے کل میں ہماری شناخت، ہماری پرائیویسی اور حتیٰ کہ ہمارے عقائد کو بھی چیلنج کیا جا سکے؟
بنتِ پاکستان کے قلم سے
شازیہ عالم شازی


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International