rki.news
تحریر۔فخرالزمان سرحدی ہری پور
صحافت کی خاردار وادی کے مسافر اور انسانیت کی خدمت سے سرشار ہستی محترم ”محمد اختر نعیم صاحب“مانسہرہ کی سرزمین میں پیدا ہوۓ۔پلے بڑھے اور جوان ہوۓ۔دیس کی مٹی سے محبت کا جذبہ اور یادوں کے گلاب تو ان کے سینے میں اب بھی تازہ ہیں انہیں تاریخ کے حسین ورق کے نام سے پکارا جاۓ تو بے جا نہ ہو گا۔خیابانِ صحافت کے باغبان ٬صحافت کی پر خار وادی کے مسافر٬کاٸنات کے رازوں کی تلاش میں سرگرداں راہی ”محترم محمد اختر نعیم صاحب“کی زندگی میں ایک تحریک٬خدمت انسانیت کا جذبہ ٬تصویر کشی کا ذوق٬پھولوں سے محبت٬بھولی بسری یادوں سے الفت کا رنگ تو بہت نمایاں نظر آتا ہے۔موصوف کی ایک تصنیف ”زبان یارمن ترکی“انمول تصنیف ہے۔یہ ایک نایاب سفر نامہ ترکیہ ہے۔سال اشاعت 2021 ٬سرورق ثاقب حسین اور زیر اہتمام اشاعت محمد ضیاء الدین
انتساب۔تصنیف اپنے پوتے محمد مزمل کے نام۔فہرست کتاب انتہاٸی خوبصورت اور جاذب نظر٬عنونات بہت جامع گویا موصوف نے جو ترکی میں دیکھا سفر نامہ کی صورت میں پیش کر دیا۔کتاب میں موصوف سے محبت کرنے والی ہستیوں کی تحریریں اس کتاب کی اہمیت میں گراں بہا اضافہ کرتی ہیں۔ان کا تذکرہ ضروری خیال کرتا ہوں۔اختر نعیم اور اقدار کا سرمایہ(ڈاکٹر اشرف عدیل)
ہمدرد انسان کا پیغام اپنے ہمدردوں کے نام(نثار احمد)
محمد اختر نعیم کا منفرد سفر نامہ(ڈاکٹر عامر سہیل)
کچھ اپنی باتیں(محمد اختر نعیم)
ہندکو تے ترکی زبان دا عشق(محمد ضیاءالدیں)
موصوف کی آپ بیتی اور سرگزشت زندگی اور سفر نامہ تو بہت ہی دلچسپ اور قابل مطالعہ ہے۔1970 کی دہائی میں موصوف نے اخبارات میں لکھنے کا آغاز کیا۔لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ قلمی سفر میں وسعت پیدا ہوتی گٸی ۔ترکی کا سفر بھی تو ایک یادگار سفر ہے۔جس کی جھلکیاں کتاب میں موجود لکھے عنوانات سے دیکھی اور پڑھی جا سکتی ہیں۔اپنا دیس پیارا دیس٬اتاترک کے دیس میں پہلا دن٬صحابیؓ کے مزار پر٬انقرہ کی جانب٬سوچنے کی باتیں٬صوفیہ سے فرار٬قبرص کی جانب٬اور بھی بہت کچھ کتاب میں مطالعہ کے لیے قیمتی سرمایہ ہے۔اب بھی موصوف نے یادوں کو تازہ گلاب کی طرح شگفتہ رکھا ہوا ہے۔اللہ کریم مزید صحت و تندرستی کی دولت عطا فرماۓ۔قلم کی روانی میں اضافہ ہو اور حلقہ یاراں میں مقبولیت کے پھول تروتازہ رہیں ۔ موصوف کی اور بھی بے شمار تحریں سرمایہ قلم ہیں۔یاد ماضی کے دریچوں میں سے گزری باتیں بڑی دلچسپی سے لکھتے ہیں۔اور
بھولی بسری یادیں۔
کبھی ہم بھی تم بھی تھے آشنا
تمہیں یاد۔ ہو کہ نہ۔ یاد ہو
دائیں وجیہہ الزماں خان، ساتھ سردار محمد یوسف اور بائیں عاشق رضا خان ۔
ہر ایک کا اپنا ایک نقطہ نظر ہوسکتا ہے ۔
اسلام اباد میں پشتو تنظیم نوے ژوند کے عہدیداروں کو گندھارا ہندکو بورڈ / اکیڈمی کا ہندکو سہ ماہی رسالہ ،، سرگی دا تارا،، پیش کیا گیا ، یہ شمارہ ہزارہ یونیورسٹئ کے پہلے اور سابق وائس چانسلر ڈاکٹر اشرف عدیل نمبر تھا۔اور بھی قیمتی تحریریں موصوف کا قلمی سرمایہ ہیں۔
ڈاکٹر ارشاد شاکر اعوان مرحوم کی تصنیف ۔
سابق ولایت پکھلی کے ترک سلاطین کے دارالحکومت گلی باغ مانسہرہ میں دیوان راجہ بابا کا مزار ہے ، مرحوم خواص خان آف ہیڑاں نے اس پر ایک کتاب لکھی جس میں فارسی کلام ہے جو سب انھی سے منسوب ہے۔ بعد ازاں شاکر صاحب نے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ اس میں سے بعض غزلیات لال شہباز قلندر سے بھی منسوب ہیں جو دیوان راجہ بابا سے تقریباً تین سو سال قبل گذرے ہیں۔ شاکر صاحب نے مذید تحقیق کی تو علم ہوا کہ دیوان راجہ بابا اور لال شہباز قلندر سے منسوب کچھ کلام تو اس سے قبل بھی موجود تھا چنانچہ انھوں نے انڈیا آفس لائبریری لندن سے رابطہ کیا ، وہاں رقم جمع کرائی تو انھوں نے ایک مائیکرو فلم شاکر صاحب کو بھیج دی جو اسے میرے پاس لائے کہ کیا ہے ؟ مجھ سے تو رقم بھی وصول کرلی اور یہ دیکھو چھ انچ کی فلم مجھے بھیج دی ۔ میں نے دیکھا تو شاکر صاحب سے کہا کہ یہ مائیکرو فلم ہے اور اس میں جو چھوٹے چھوٹے نقطے نظر آرہے ہیں یہ صفحات کو ظاہر کرتے ہیں میں آپ کو ان کے پرنٹ بنادوں گا ، چنانچہ میں راولپنڈی گیا اور وہاں سے گلاسی پیپر خرید کر لایا۔ شاکر صاحب کو میں نے وقت دیا ۔ دن بھر میں اپنے سٹوڈیو میں کام کرتا رہا اور رات کو ہم دونوں سٹوڈیو کا دروازہ بند کرکے ڈارک روم میں اپنے کام میں لگ گئے۔ اس رات میں نے ان کو تمام پرنٹ بنا کر دئے اور بعد ازاں شاکر صاحب نے مطالعہ شروع کیا تو معلوم ہوا کہ جو کلام اول الذکر دونوں بزرگوں سے منسوب کیا گیا ہے اس میں اکثر غزلیات تو مخدوم سید یوسف راجو سے بھی منسوب ہیں جن کا عرصہ تو دونوں بزرگوں سے بہت پہلے کا ہے ۔ لال شہباز اکیڈمی والوں نے شاکر صاحب کو خط لکھا اور اس نشاندھی پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
ایبٹ آباد سے شائع ہونے والے ہفت روزہ نشیمن میں کئی ماہ اس پر بحث ہوتی رہی ۔ یہ سب باتیں 1990 سے قبل کی ہیں۔ شاکر اعوان کی تحقیق جاری رہی اور پھر ،، زلف الہام ،، شائع ہوگئی۔
1980 کی دہائی کے اوائل میں ترک سفارت خانہ اسلام آباد کے فرسٹ سیکرٹری فاتح جیلان ہماری دعوت پر بفہ ( مانسہرہ ) پہنچے انھوں نے تمام دن ہمارے پاس گذارا اور رات کو واپس ہوئے۔میری معاونت جناب مختار احمد شکیب اور عزیز الرحمن لغمانی نے کی ۔اس موقع پر انھیں کیلی گرافی سے بنا پاکستان اور ترکیہ کا پرچم پیش کیا گیا جو بعد ازاں سفیر انال باتو نے اپنے دفتر میں آویزاں کیا۔
زیر نظر تصویر میں دائیں سے عزیز الرحمن لغمانی مرحوم ،محمد رفیق ناشاد مرحوم، فاتح جیلان ،محمد اختر نعیم اور مانسہرہ کالج کے سابق پرنسپل طاہر فاروق مرحوم ہیں ۔۔
فاتح جیلان بعد ازاں ہالینڈ میں سفیر رہے اور پھر ترک وزارت خارجہ سے منسلک ہوگئے ۔ وہ اچھے دوست بنے اور ہماری خط و کتابت رہی۔ وہ جب بفہ آرہے تھے تو عنایت آباد پل پر کھڑے ہوکر انھوں نے اس منظر کو دیکھا تو کہا کہ یہ تو بالکل میرے علاقے جیسا منظر ہے۔
یاد ماضی
ایسے ہی بڑے کیمروں پر میں نے 1970 میں فوٹوگرافی کا آغاز کیا ، اس فن کو اساتذہ سے سیکھا ۔
عکاسی ساکت ہو یا متحرک ، بنیادی اصول دنیا میں ایک ہی طرح کے ہیں ، آج کل اکثریت سے ان اصولوں کو مد نظر نہیں رکھا جاتا ۔
تصویر ساکن یا متحرک ایسی بنائیں کہ وہ امر ہو جائے ۔ یہی أپ کی کامیابی ہوگی۔
میری بنائی ہوئی دو تصاویر 1980 اور 1990 کی دہائی میں ایک جرمن میگزین نے دو مختلف مواقع پر اپنے ٹائٹل پر شائع کیں ۔ جن میں ایک بفہ مانسہرہ کے سکول کی پرانی عمارت اور دوسری شوگراں کی تھیں۔
آپ سے اتنا ہی کہنا ہے کہ اب تو موبائل کی صورت میں ہر ہاتھ میں کیمرہ ہے۔آگے بڑھیں اور اپنے اردگرد کی تاریخی اشیاء ، عمارات ، مناظر، شخصیات، ثقافت وغیرہ کو محفوظ کریں۔ مستقبل میں یہ آپ کا بہترین اثاثہ ہوگا۔ میں اب بھی یہی کچھ کررہا ہوں ۔
آپ کی کامیابی کے لئے دعا گو ہوں ۔
Leave a Reply