کچھ لوگوں کے چہرے خوب صورت ہوتے ہیں، کچھ لوگوں کی چال ڈھال، اٹھنے بیٹھنے کے شاہانہ انداز انھیں دوسروں سے ممتاز کرتے ہیں، کچھ لوگوں کا کردار، بول چال، گفتار انھیں لوگوں کی آنکھوں کا تارا بنا دیتا ہے، کچھ لوگوں کا خلوص انھیں ساری دنیا میں نمایاں کر دیتا ہے،
اس میں ہر ہنر چھپا بیٹھا تھا
اس کی گفتار میں کردار کا رنگ
اس کے لہجے میں حلاوت بے پناہ
اس کے الفاظ میں جادو کا نگر
اس نے ایسی نباہی دنیا سے
اس نے ثابت کیا وہ مرزا ہے
اس کی ہر دوستی، بے عیب حسن
اس نے ثابت کیا جبار ہے وہ
تو جب کردار، گفتار اور افکار کے آہن مل جاتے ہیں تو اس ملاپ سے جو مثلث معرض وجود میں آتی ہے اس ہشت رنگ اور ہشت پہلو شخصیت کو آپ اور ہم بڑے خلوص، ادب اور احترام سے جبار مرزا کہتے ہیں وہ اس دور کے درویش مشت انسان ہیں، شاعر ہیں، ادیب ہیں، کالم نگار ہیں اللہ کے نیک بندے ہیں اور اللہ کے بندوں سے انتہا کا پیار کرتے ہیں. محبوبہ سے پیار کرتے ہیں تو بھی حد کر دیتے ہیں اور بیوی سے عشق کرتے ہیں تو شاہجہاں کو بھی پیچھے چھوڑ جاتے ہیں بچوں سے اور بچوں کے بچوں سے ان کا عشق ایک دیو مالائ قصے جیسا حسین اور روح پرور ہے اور تو اور وہ ہر راہ چلتے ہوئے ہر ادیب ہر لکھاری کے لیے بھی دل میں ایک نرم گوشہ لیے پھرتے ہیں کام کرنے والوں مزدوروں، ملازموں سب کا خیال دل و جان سے رکھتے ہیں ان کے خون میں مغلیہ جاہ و جلال تو ہے سو ہے مغلیہ دل بھی رکھتے ہیں ان کا ہاتھ کھلا اور دستر خوان شروع سے ہی بڑا ہے ان کی اس فیاضی کا ثبوت ان کے کتابوں
پہل اس نے کی تھی
پاکستان کا آخری بڑا آدمی
جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں
اور زیر تبصرہ کتاب مزاج نگاروں کا کمانڈر انچیف میں سطر بہ سطر عیاں ہے اپنے چاہنے والوں سے محبت کرنے اور اس محبت کو الفاظ میں بیان کرنے کا فن کوئی جبار مرزا سے سیکھے. جبار مرزا صاحب اب اردو ادب کو اپنی سولہ کتابوں کے تحائف سونپ چکے ہیں جن کی ترتیب کچھ یوں ہے.
1.مرحلے شاعری کی کتاب جنوری 1976
2.فاصلے.شاعری کی کتاب. جنوری 1984
3 ضیاء دور مولانا فضل الرحمن کی نظر میں. یکم اگست 1990
4.آن دی ریکارڈ نرکز میں شایع ہونے والے کالموں کا ضخیم مجموعہ. 28 مءی 2000
5.چھوٹے لوگ(ملاقاتیں، یادیں) 2001
6.خراج تحسین (منظوم) 28مءی2003
7.پاکستان کی پہچان. 7 مءی 2006
8.عراضہ.منظوم مخطوعہ. 28 مءی 2011
9.پہل اس نے کی تھی. (یادیں) جولائی 2015
10.قایداعظم اور افواج پاکستان. جون 2016
11.نشان امتیاز. جنوری 2018
12.کشمیر کو بچا لو. اپریل 2020
13. پاکستان کے 75 برس. اگست 2022
14. جو ٹوٹ کے بکھرا نہیں. 8 جون 2021
15. مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف سید ضمیر جعفری. جنوری 2024
16. صحافتی یادیں. مءی 2024
اور آنے والی کتابوں میں
17 راولپنڈی کا ادبی پنج تارہ
18 روزنامہ جنگ کے کالم
19.ناموس رسالت رد قادنیت شامل ہیں
جبار مرزا راولپنڈی میں پیدا ہوئے انہیں گلیوں میں کھیل کود کے جوانی اور پھر بزرگی جیسے بابرکت دور میں داخل ہوئے بچپن ہی سے لکھاری اور کھلاڑی، سو میٹر دوڑ کے ونر، کرکٹ کے کھلاڑی، تیراک نیشنل لیول کے باکسر 1976 میں ایم اے اردو اور 1996 میں جدید غزل پہ پی ایچ ڈی کی ڈگری رکھنے والے ڈاکٹر جبار مرزا صاحب کی سادہ دلی اور درویشی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر کی بجائے صرف جبار مرزا ہی لکھتے ہیں. مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف پاکستان کے سب سے بڑے مزاحیہ شاعر جناب سید ضمیر جعفری کی یادداشتوں پہ مشتمل ایک جامع اور مفصّل روداد ہے. کتاب کا انتساب سید ضمیر جعفری صاحب کے بڑے بیٹے میجر جنرل احتشام ضمیر (شامے) کے نام کیا گیا ہے. جن کی بڑی خواہش تھی کہ مزاح نگاروں کا کمانڈر انچیف ان کی زندگی میں شایع ہو جائے مگر وہ حادثاتی موت کا شکار ہو گیے. کتاب کا دوسرا انتساب سید ضمیر جعفری کے چھوٹے بیٹے سید امتنان ضمیر جعفری کے نام ہےجن کے بقول سید ضمیر جعفری صاحب کی یادداشتوں کا ایک بڑا حصہ بکسے میں رکھی ہوی ڈائریوں میں دیمک کی نظر ہو گیا. کتاب میں بڑی تفصیل کے ساتھ سید ضمیر جعفری صاحب کی پیدائش سے موت اور بعد میں ہونے والی برسیوں تک کا احوال اور مطلبی زمانے کی مطلب پرستی کا خوب بیان ہے. سید ضمیر جعفری کے دو ہی شوق تھے کھانا اور لوگوں میں خوبیاں تلاش کرنا ضمیر جعفری صاحب کی تین بیگمات کا مفصّل ذکر ہے
پہلی بیگم سیدہ گوہر مقصود جو خاندانی سیاست کی نذر ہو گییں، دوسری بیگم سیدہ انیس زاہرہ جو سید ضمیر جعفری صاحب کو پیار سے پارے کہتی تھیں اور بھری جوانی میں ہی انتقال کر گءی تھیں اور سید ضمیر جعفری صاحب کے خالص دیہاتی سراپے میں تمام عمر انیس زہرہ کا گداز پن جھلکتا رہا. اور تیسری بیگم جہاں آرا(جاج) جو گھر داری کے فن میں طاق ہونے کے ساتھ ساتھ سید ضمیر جعفری کے تین بچوں کی ماں بھی تھیں. کتاب میں مستند حوالہ جات کی بھر مار ہے تصاویر سے سجی ہوی یہ کتاب یادداشتوں کا شاہکار ہے. سید ضمیر جعفری کے چند اشعار
اونچے اونچے محل مینارے، دل اندر دیوار ضمیر
میرے بیٹو؛ شہر نہ رہنا، شہر کے لوگ اکیلے ہیں
اور یہ مشہور زمانہ شعر دیکھیے
ہر نظر بس اپنی اپنی روشنی تک جا سکی
ہر کسی نے اپنے اپنے ظرف تک پایا مجھے
اور کتاب اتنے پراثر اور من موہ لینے والے پیراے میں تحریر کی گءی ہے کہ اسے شروع کر تے سار ہی ختم کرنے کی دھن لگ جاتی ہے. جناب جبار مرزا صاحب نے حق الفت ادا کیا سلامت رہیں اور اسی طرح ادبی افق پہ سدا جگمگاتے رہیں. سید ضمیر جعفری صاحب کے چند شعروں کے ساتھ اجازت
کچھ انسان یوں مر جاتے ہیں
جیسے اپنے گھر جاتے…. ہیں
قبر پہ رونق رہ جاتی……ہے
قصر کے رنگ اتر جاتے.. ہیں
کیسا وقت ضمیر….. پہ آیا
منہ پہ لوگ مکر جاتے ہیں
سید ضمیر جعفری
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drnaureenpunnam@gmail.com
Leave a Reply