تازہ ترین / Latest
  Monday, December 23rd 2024
Today ePaper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

مسلمان عورت اور عصر ِ حاضر کے تقاضے

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Tuesday, September 3rd, 2024

از قلم
تمثیلہ لطیف

تم مجھے بہترین ماٸیں دو میں تمہیں بہترین قوم دونگا ۔ یہ جملہ نہیں بہترین قوم کی مینوفیکچرنگ کا فارمولہ ہے ۔ دور ِ نبوی ، ان کے بعد آنے والے اور آج کے اسلامی معاشرے کا انحطاط بہترین ماں کی عدم توجہی و لاپرواٸی کا نتیجہ ہے ۔ باشعور اور عصری تقاضوں کو سمجھنے والی عورت کسی بھی معاشرہ کا جزو ِاعظم کہی جاسکتی ہے ۔ باشعور عورت ہی زمانہ کی زرخیزی کا معیار ہوتی ہے ۔ پڑھی لکھی عورت باشعور بھی ہو ضروری نہیں جاہل عورت بھی باشعور ہوسکتی ہے ۔ موجودہ زمانے کی پڑھی لکھی خواتین کوتاہ نظر ہیں ۔ تعلیم کا مقصد صرف اچھی جاب کا حصول اور آساٸشات ِ زندگی ہدف ہیں ۔ نہ اعلی مقاصد ذہن میں نہ نسل و زمانہ سازی میں اپنے کردار کی اہمیت سے ہی واقفیت ۔ ایسی صورت میں جب گلہ بان ہی اپنے فراٸض کی احسن انجام دہی سے نا آشنا ہو تو قوم نہیں بنتی ایک ریوڑ ایک ہجوم انسانیت و تہذیب و اقدار کو پامال کرتا نظر آتا ہے ۔ خواتین کی فکری و تحقیقی جستجو کا داٸرہ وسیع ہونا چاہٸے لیکن فی زمانہ خواتین فلموں ، ڈراموں مادی اشیا ٕ کے حصول فیشن و ماڈرن ازم کی لاحاصل چک پھیریوں میں الجھی ہاتھوں کی نسل کو بھی اعلی مقاصد سے دور کرتی جارہی ہیں ۔ عصری علوم پر دسترس و سبقت کا ہونا ضروری صحیح لیکن ہم پر سب سے پہلا حق ماننے والے دین کا ہے ۔ خواتین کی دین و شریعت کو لیکر واجبی شناساٸی یا ِسرے سے نا آشناٸی اسلامی معاشرتی اقدار کے لٸے زہر ہلاہل سے کم نہیں ۔

عورت ولی یا پیغمبر نہیں بن سکتی لیکن ولی و پیغمبر کی تربیت اسکی کوکھ و گود کی محتاج ہے ۔ مہذب و باشعور معاشروں میں حاملہ عورت مقدس گاۓ کا درجہ رکھتی ہے ۔ حمل کا زمانہ عورت جتنے سکون و آرام سے گزارتی ہے اتنی ہی اچھی نفسیاتی نشونما بچہ کی ہوتی ہے ۔ کوکھ میں صرف بچہ کا جسم ہی نہیں بن رہا ہوتا اس کی سوچ ، خیال ، فکر کی بالیدگی بھی ہورہی ہوتی ہے ۔ بچہ کس کردار و اعمال سے معاشرہ کو متاثر کرے گا اس بات کا فیصلہ وہ افعال کرتے ہیں جو حاملہ زچگی میں اپناتی ہے ۔ نو مہینے کے عرصہ کو معیاری اوقات میں ڈھالنے کے لٸے دنیاوی معاملات سے دوری اختیار کرکے اعتکاف کی حالت اپنا لینی چاہٸے ۔ اس عرصہ میں نماز ، درود شریف ، تلاوت و اذکار و اسلامی کتب کے مطالعہ میں اپنا وقت گزارنا چاہٸے ۔ حالت ِ زچگی میں عورت کو کس طرح رکھا جارہا ہے ، متعلقین کا اسکے ساتھ کیسا سلوک ہے ، وہ کیا سوچ رہی ہے ، دیکھ رہی ہے کس خیال میں ڈوب کر وقت گزار رہی ہے یہ سب براہ راست بچہ کو متاثر کرتا ہے ۔

ہم جب اولیا اللہ کے حالات ِ زندگی کا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے ان کی ماوں کا طرز ِ زندگی اور انداز ِ فکر انکی کردار و ذہن سازی میں کتنا معاون ثابت ہوا ۔
حضرت بختیار الدہن کاکی ؒ کو جب پہلی مرتبہ مدرسہ میں بٹھایا گیا تو ان کے استاد ِگرامی نے ازراہ ِ تفنن پوچھ لیا کہ
” بھٸی کہاں سے سبق شروع کیا جاۓ “
تو حضرت نے جواب دیا
” سبحان الذی سے “
تو استاد نے حیرت سے پوچھا
” اور پہلے کے چودہ سپارے؟“
حضرت نے جواب دیا
” وہ تو میں نے پڑھ لٸے “
استاد متحیر لہجہ میں
” کس سے ؟ “
تو حضرت نے ایسا جواب دیا جو آج کی ماوں کے لٸے مشعل ِ راہ ثابت ہوسکتا ہے ۔
” جب میں ماں کی کوکھ میں تھا تو قرآن شریف کی تلاوت سنتا تھا ۔ جب دنیا میں آیا تب بھی میری ماں کی روٹین میں فرق نہیں آیا وہ وضو کرکے مجھے دودھ پلاتیں اور اس دوران تلاوت بھی کرتی جاتیں ۔ کچھ اور بڑا ہوا تو جب میری ماں تلاوت شروع کرتیں میں بھی ادب سے سنتا ابھی میری ماں کے چودہ سپارے مکمل ہوۓ ہیں اور وہ مجھے یاد ہیں ۔“
استاد ِ گرامی نے کہا
”پہلے میں وہ سنوں گا پھر نیا سبق دونگا “
حضرت نے چودہ سپارے تلفظ و اعراب کی پوری صحت کے ساتھ سنا کر استاد ِ گرامی کو اپنا مرید کرلیا ۔ حضرت بختیار الدین کاکیؒ حضرت خواجہ سلیم الدین چشتیؒ المعروف سلطان الہند کے خلیفہ اول اور وقت کے قطب تھے ۔ کوکھ سے گود کے سفر میں ماں کی روٹین ان کی نفسیات پر کس طرح اثر انداز ہوٸی یہ ماوں کے لٸے سوچنے کا مقام ہے ۔

آج کی ماوں کا زیادہ وقت کیبل اور سوشل میڈیا کے ساتھ گزرتا ہے ایسی صورت میں صرف گلوکار و اداکار ہی پیدا کٸے جاسکتے ہیں امت کے سپاہی نہیں ۔ ہم سب یہ سنتے و پڑھتے آٸے ہیں کہ امت محمدیہ قیامت میں سب سے زیادہ ہوگی اور امت کی کثرت سے محبوب ِ خدا خوش ہونگے ۔ ایسی کثرت جو جوہر ِ ایمانی سے خالی ہو کیا رحمت اللعالمین کے لٸے خوشی کا باعث ہوسکتی ہے؟ نسل کے تحفظ ِ ایمانی کے لٸے خواتین کو اپنے افعال کا جاٸزہ لیکر از سر ِ نو اپنے معمولات کا تعین کرنا ہوگا ۔ آدم و حوا کا تعلق اور افزاٸش ِ نسل بچوں کا کھیل نہیں ۔ اس ذمہ داری کو نبھانے کے لٸے دوستوں کی ناقص معلومات اور سوشل میڈیا کی مدد لینا انتہاٸی حماقت کی بات ہے ۔ آداب مباشرت کے اسلامی طور طریقوں پر جید علمإ کی مستند کتابوں کی روشنی میں اپنے اعمال کی تربیت کا اہتمام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔

اب جبکہ غزوہ ہند سر پہ کھڑا ہے اور اغیار کی سازشیں عروج پر پہنچی ہوٸی ہیں امت ِ مسلمہ چاروں طرف سے یہودی ، صلیبی و ہندی گٹھ جوڑ کا نشانہ ہے ۔ ایسے میں امت کی خواتین خصوصاً ماوں کا کردار اہم ہوگا ۔ ابھی ہم مصر میں ایک اسراٸیلی عورت کے ہاتھوں بہت بڑی چوٹ کھا کر بیٹھے ہیں ۔ ابو الفتح سیسی کی اسراٸیلی ماں نے طویل المدت منصوبہ بندی کرکے عرب مسلمان سے شادی کی اور پھر بیٹے کی تربیت سے ایک ناممکن کام کو ممکن بنادیا تو کیا امت ِ مسلمہ کی ماٸیں اتنی بے حمیت ہیں جو وہ اپنے معمولات کو اسلامی شعاٸر میں نہیں ڈھال سکتیں ؟

نور الدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کوٸی افسانوی کردار نہیں تھے ۔ وہ بطن ِ مادر کے تربیت یافتہ ہادی تھے جنہوں نے عشق ِ رسول کے سچے جذبے سے چار دانگ میں امت ِ محمدیہ کا وقار و عَلم بلند کیا ۔ آج بھی دشمنوں کی صفوں میں ان کے نام سے کپکپی طاری ہوتی ہے ۔ امت کی ماٸیں آج بھی سچے جہادی اور عاشقوں کی صفیں تیار کرسکتی ہیں جو صلیب و ستارہ کی فوج ِِ کثیر کو ایوبی جذبہ سے تاراج کردیں ۔ اس کے لٸے ضروری ہے کہ اپنی صلاحیتوں اور قابلیتوں کو پہچانیں اور اغیار کے ہرکارے جو میڈیا کے ذریعہ ہر گھر میں براجمان ہیں اپنی زندگیوں سے بیدخل کریں اور اپنے خاندان و نسل کے ایمان کی حفاظت کا بندوبست کریں ۔


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International