Today ePaper
Rahbar e Kisan International

مشاعرہ گاہ سے بلاوہ۔

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Sunday, April 13th, 2025

rki.news

ابا کی خشمگیں نگاہیں۔ گھر واپسی ڈانٹ ڈپٹ۔ شہر کے شاعروں میں ایک نام کا اضافہ۔ حاسدوں کا حسد…}

مشاعرہ گاہ سے جو صاحب ہمیں لینے آئے تھے ان سے کئی بار تصدیق کے بعد ہمیں یقین ہوگیا کہ ہمیں ابا ہی نے بلایا ہے۔ مشاعرہ (شعری نشست) شہر کی ایک ادب دوست شخصیت جناب سید تعظیم حسین نقوی کے گھر تھا۔ داخل ہوتے ہی ابا کی قہرناک نظروں کا سامنا کرنا پڑا۔۔ آؤ آؤ صاحبزادے کی دل خوش کُن آوازوں نے حوصلہ دیا۔ ابا کی شہر سے سال بھر کی غیر حاضری نے ہمیں ادبی حلقوں سے کافی حد تک متعارف کروادیا تھا۔ شعری نشست کا دعوت نامہ بھی اسی حوالے سے تھا۔ جب ہم ابا کے ساتھ نہیں پہنچے تو ان کے دوستوں نے اصرار کرکے ہمیں بلوانے کا انتظام کیا۔
ہماری غزل سے مشاعرہ شروع ہوا اور معمول سے زیادہ داد ملی ۔ ہماری ہمت افزائی سے بڑھ کر شاید ابا کو یہ باور کرانے کی کوشش تھی کہ آپ کے صاحبزادے اچھے شاعر ثابت ہوسکتے ہیں۔
باقی تمام وقت ہم ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم کے مصداق خاموش بیٹھے رہے۔
واپسی پر ابا نے گھر پہنچنے کا انتظار بھی نہیں کیا۔ راستے ہی میں ڈانٹ ڈپٹ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ بس پٹائی نہیں ہوئی زیادہ زور پڑھائی پر تھا۔
دوسرے دن ناشتے پر آمنا سامنا ہوا۔ فرمایا کیا گھگوؤں کی طرح بیٹھے رہے تمام وقت مشاعرے میں۔ داد دیا کرتے ہیں۔ واہ وا، کیا خوب، لیکن ہر شعر پر نہیں صرف اچھے شعر پر۔ ہم نے گھگوؤں کی طرح سر ہلا کر دل ہی دل میں خوش ہوتے ہوئے آہستگی سے جی کہا۔ اس کا مطلب تھا ہمیں آئندہ کے لیے اجازت مل گئی۔
ایک ہفتہ بھی نہیں گزرا تھا کہ ایک طرحی مشاعرہ کا دعوت نامہ مل گیا۔ چند روز بعد پیشی ہوئی غزل کہہ لی، جی ابا۔ کتنے شعر؟ پانچ شعر بنائے ہیں۔ احمق شعر میز کرسی نہیں جو بنائے جائیں، شعر کہے جاتے ہیں، پھر ڈانٹ ۔ جی یہ شعر کہے ہیں، غزل تو ہر وقت ساتھ ہی رہتی تھی جھٹ جیب سے کاغذ نکال، سامنے رکھ دیا۔ یہ کیا صرف پانچ شعر۔۔۔ غزل کسی پتنگ کی طرح اڑتی ہوئی ہماری ناک سے آٹکرائی، یہ کوئی غزل ہے کم ازکم سات آٹھ شعر اس زمین میں نکالنا۔ ہم نے کاغذ کسی اہم دستاویز کی طرح سنبھال لیا، ذہن زمین اور زمین سے شعر نکالنے میں الجھا ہوا تھا۔ جب تک مشاعرے کا دن نہیں آگیا روز یہی سوال ہوتا کہ کتنے شعر ہوئے۔ آٹھ اشعار پر فہمائش ہوئی طاق میں تعداد بہتر ہوتی ہے۔ طاق ۔۔اب تک تو دیوار میں چراغ رکھنے کے لیے بنی جگہ ہی کو کہتے تھے۔ طاق ۔۔۔۔ہم نے حیرت سے ابا کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ معنی بتانے کی بجائے لغت سے استفادے کا حکم صادر ہوا۔ اس سے پہلے ہم “گھگو” کے معنی دیکھ چکے تھے۔ الو، احمق وغیرہ وغیرہ اس لیے ان خطابات سے بچتے ہوئے لغت کی ورق گردانی شروع کردی جو آج بھی جاری ہے۔ غزل کہہ کر ابا کو دکھائی کئی الفاظ پر اعتراض ہوا، یہ شیشہء دل کی کرچیں کیا ہوتی ہیں۔ ببول کیا ہے۔ کانٹے کہو۔ لیکن مشاعرے میں جب انہی اشعار پر داد ملی تو بہت خوش ہوئے۔ یہ ریمارکس بھی سننے کو ملے کہ ناطق بدایونی کے صاحبزادے کے اشعار میں جدت ہے۔ اب ہم زیادہ اعتماد سے شعر کہنے لگے تھے۔ اشعار کی تعداد بھی کافی ہوتی تاکہ ابا خوش ہوں۔ اسی کے ساتھ فی البدیہ شعر کہنے کی صلاحیت بھی ابا کے روکنے ٹوکنے اور اللہ کی عطا سے حاصل ہوگئی۔ سال دو سال ہی میں ہمارا شمار شہر کے اچھے شعراء میں ہونے لگا۔ خیرہور کے علاوہ سکہر، حیدرآباد،میرپور خاص بھی مشاعرے پڑھنے جانے لگے۔ ہمارے ساتھ اس وقت ہمارے نوجوان دوست شاعروں میں حسن اکبر کمال، راشد مفتی(مرحومین) اور انوار حیدر (CSS) بھی شامل تھے۔ ہم مشاعروں میں سب سے پہلے پڑھنے والوں میں سے تھے۔ تھوڑے ہی عرصے میں یہ اعتراض شروع ہوگیا کہ مشاعرے کی فضا خراب ہوجاتی ہے فیروز خسرو کو پہلے مت پڑھواؤ۔ دوسرے تیسرے نمبر پر بھی پڑھوانے پر کچھ گھاگ شاعروں کو شکایت ہوئی کہ یہ کل کا لونڈا ہمارے بعد کیوں پڑھتا ہے۔ آخر ایک اور تجربہ کیا گیا وہ یہ کہ منتظمین ترتیب سے بٹھاتے اور ایک طرف سے پڑھوانا شروع کردیا جاتا۔ (فرشی نشت ہوا کرتی، کھڑے ہوکر پڑھنے کا رواج نہیں تھا)۔ افسوس شاعروں میں حسد اس دور میں بھی تھا۔ اسی دوران ایک ناخوشگوار واقعہ چند حاسدوں کی ملی بھگت سے ہمارے ساتھ پیش آگیا۔ (جاری ہے)


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2025
Rahbar International