یاد آتا ہے شب و روز فسانہ دل کا
ہائے اُس نور سی صورت پہ وہ آنا دل کا
لہجہ شیریں ہے بہت اور ادا بھی قاتل
بڑا مشکل ہے مری جان بچانا دل کا
گرم نفرت کا جو بازار کیا کرتے ہیں
ایسے لوگوں سے تو بہتر ہے چھپانا دل کا
دلِ نادان کی عادت پہ ہنسی آتی ہے
بے وفا پہ بھی لٹاتا ہے خزانہ دل کا
نغمۂ عشق مرے دوست نے جب چھیڑ دیا
“آ گیا یاد کسی شوخ پہ آنا دل کا”
دورِ حاضر میں سبھی پیار تو کرتے ہیں مگر
کتنا آسان ہے غزلوں سے لبھانا دل کا
یہ کوئی کھیل نہیں پیار کی بازی أشرف
لٹ بھی جاتا ہے کبھی اس میں ٹھکانہ دل کا
اشرف حسن عارفی
کرنجوت بازار ۔یو پی
Leave a Reply