تازہ ترین / Latest
  Saturday, October 19th 2024
Today News Paper
Rahbar e Kisan International
Abdul Rasheed Qureshi - Founder of Daily Rahbar Kisan Internation Lahore

معاف کرنے کا ہنر سیکھیے

Literature - جہانِ ادب , Snippets , / Sunday, March 3rd, 2024

ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور

معافی مانگنا اور معاف کر دینا دونوں ہی بڑے خوبصورت اور احسن اقدام ہیں کیوں کہ دونوں ہی افضل ہیں دونوں ہی حوصلے اور صبر والے امر ہیں دونوں ہی میں من کو مارنا پڑتا ہے دونوں ہی میں انا کا خون کرنا پڑتا ہے دونوں ہی میں اپنی من مانی اور میں کو قربان کرنا پڑتا ہے معافی مانگنے والا انسان ہی ہو سکتا ہے اور انسان بھی وہ جس کا ضمیر زندہ ہو جس سے ا کا رب اتنا تو راضی ہو کہ وہ گناہ اور ثواب میں تفریق جانتا ہو. جو صراط مستقیم کا شیدا و دیوانہ ہو اور معاف کرنے والی ذات بے شک اللہ سبحان تعالیٰ ہی کی ہے اور وہ بے شک غفور و رحیم ہے وہ بے شک کھلے دل والا اور عیبوں کی پردہ پوشی فرمانے والا ہے اور اگر میرا خداخطاووں کے پتلے بنی نوع انسانوں کی خطاوں کی پردہ پوشی نہ فرماتا تو انسان کسی دوسرے انسان سے نگاہ ملا کے بات نہ کر سکتا اور اللہ پاک کو توبہ استغفار کرنے والوں سے بہت پیار ہے اور انسانوں میں سب سے زیادہ توبہ استغفار کربے حضرت آدم علیہ السلام سلام ہیں اللہ پاک توبہ کرنے والوں کو معاف کرنے والا ہے اور بے شک معاف کر نا مکمل خدای صفت ہے. اور اللہ پاک فرماتے ہیں تم لوگوں کو معاف کرواللہ تمہیں معاف کرے گااور اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اگر تم کوئی بھلائی اعلانیہ کرو یا چھپ کر یا کسی کی برای سے درگزر کروتو یہ افضل ہے کیونکہ اللہ ہر طرح کی سزا دینے پر ہر طرح سے قادر ہونے کے باوجود اپنے بندوں کے گناہوں سے در گزر فرماتا ہے. اس میں بھی کوی شک نہیں کہ مذہب اسلام ہمیں کسی بھی ظلم، ناانصافی کے معاملے میں ادلے کے بدلے کی تعلیم دیتا ہے یعنی

مال کے بدلے مال
جان کے بدلے جان
ناک کے بدلے ناک
آنکھ کے بدلے انکھ
کان کے بدلے کان
ان تمام باتوں کے باوجود اسلام میں معاف کر دینے کو بہت اونچا مقام دیا گیا ہے اور بلاشبہ معاف کر دینا افضل ترین فعل ہے. اگر کوئی آپ پہ ظلم کرتا ہے اور آپ استعداد اور استطاعت کے باوجود صبر سے کام لے کر ظالم کو معاف کر دیتے ہیں تو اس کا اجر اور ثواب بہت زیادہ ہے. اور اللہ پاک فرماتے ہیں کہ اگر تم کسی کو سزا دینے لگو تو ایسی ہی سزا دینا جیسی تمہیں تکلیف پہنچای گءی ہو اور اگر تم اس تکلیف پہنچانے والے کو معاف کر دو تو افضل ہے اور جس نے معاف کیا اور صبر کیا تو یہ ضرور ہمت والے کاموں میں سے ہے.
اور معاشرے میں بگاڑ کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم سب اپنی اپنی اناوں کے بت بنا کے ان کی پرستش کرتے رہتے ہیں اور تیری میری کے جھگڑوں میں پڑ کر کے اپنا اپنی قوم اور اپنے ملک کا کباڑا کر کے اپنی جہالت کا مظاہرہ کر کے خواہ مخواہ ہی اپنے آپ کو بڑا ثابت کرنے کے اونگے بونگے جتن کرتے رہتے ہیں اور اپنی پستی کی دلدل میں مزید گہرے دھنس جاتے ہیں اور اس شعر کی منہ بولتی تصویر بن جاتے ہیں کہ
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
تواس آپا دھاپی اور تیرے میرے کی لڑائی نے قومیت کو تو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہی شخصی بناوٹ اور گھریلو وقار کو بھی سبو تاژ کیا.
تیری میری کے جھگڑے
یہ آپا دھاپی کے قصے
یہ تیری میری کے جھگڑے
یہ چھوٹی چھوٹی باتوں پہ
گنڈاسے، ڈنڈے اور لفڑے
یہ پھندے ہیں یا جھنڈے ہیں
ان نت نیے بکھیڑوں میں
یہ نت نیے سیاپوں میں
انسان بہت لاچار ہوا
بے نور ہوا مجبور ہوا
کہنے کو تو مغرور ہوا
سب اپنوں سے وہ دور ہوا
فزہ پچیس سالہ قبول صورت دوشیزہ تھی آج اس کی رخصتی تھی بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پہ تھی بڑی مشکلات سے اس کے والدین اس کے لیے بر، جہیز اور بیاہ کے خرچے کا انتظام کر پاے تھے. دولہن اپنی تیاری کے بعد خوب جگمگا رہی تھی تھوڑی دیر میں ڈھول بجنے لگے بارات آگءی بارات آگءی کا شور مچ گیا دولہن کی رشتہ دار خواتین دولہا دیکھنے سیڑھیاں پھلانگ کے چھت کی دیواروں پہ سج گییں مشرقی شادیوں میں یہ بارات کو چھتوں کی دیواروں سے تاکنے جھاکنے کی روایت چند سال قبل تک اپنی پوری آن بان کے ساتھ موجود تھی مگر جب سے لوگوں کے دل چھوٹے اور شادیاں شادی بڑے بڑے شادی ہالزمیں ہونے لگیں تو یہ البیلی اور انوکھی دولہا کو دیکھنے کی روایت بھی دم توڑ بیٹھی
اس دور میں الہی محبت کو کیا ہوا
چھوڑا وفا کو ان نے مروت کو کیا ہوا
ہنستی مسکراتی بھنگڑے لڈیاں ڈالتی برات میں پٹاخوں کی گھن گرج عجب شور مچا رکھا تھا اچانک ہی ہنستے کھیلتے ہجوم میں بھگڈر مچ گءی ایک پٹاخہ دولہن کے چچا کے پاوں پہ جا پھوٹا لو جی اب چاچا جی کی غیرت غلط وقت پہ جاگ اٹھی بات بات میں گالی گلوچ اور پھر دھینگا مشتی تک نوبت جا پہنچی دولہن والوں نے دولہا والوں کی لاکھ منت سماجت اور ترلے منتوں کے باوجود بیٹی دینے سے انکار کر دیا اور گھوڑا صرف نامراد دولہا اور بے بس باراتیوں کو لے کے چلتا بنا اور سجی سجای دولہن بارات میں آے ہوے ایک فوجی کی زوجہ بنا دی گءی اور یہ صرف صبر کی کمی اور معاف نہ کرنے کی وجہ سے پیش آیا. چھوٹی سی کوتاہی کی کتنی بڑی سزا.
اور وہ بیس سے بائیس برس کے چار نوجوان تھے بچپنا اور نوجوانی اکٹھے ہی موج مستی کرتے پھرے اور چونکہ پڑھنے لکھنے کا کوئی خاص سلسلہ نہ تھا تو مذاق ہی مذاق میں چھوٹی موٹی چوریاں کرتے کرتے کب گاوں کے مشہور ڈاکو بن گیے انھیں خبر ہی نہ ہوی اور پھر ان پہ اللہ کا عذاب ایسے نازل ہوا کہ وہ ڈکیتی کے ساتھ ساتھ متاثرہ گھر کی خواتین کی عزتیں بھی پامال کرنے لگے گاوں کے گاؤں ان کے اس بہیمانہ سلوک کا شکار ہوے اور پھر گاوں کے بڑے بوڑھوں نے باقاعدہ پلاننگ کر ان چار ڈاکوؤں کو دعوت پہ بلایا اور کمرے میں بند کر کے ڈنڈوں سے اتنا مارا کہ ان کے ہڈ پیر چورو چور کر دیے اور جب ان کتوں سے بھی بد تر انسانوں کو مرنے کے بعد گولیاں مار کے وقوعے کو پولیس مقابلے کا رنگ دیا گیا اور ناہجار ڈاکوؤں کو لاوارث قرار دے لر دفن کر دیا گیا برے کام کا برا ہی انجام اور اتنے برے فعل کی تو معافی کا سوچنا بھی بذات خود ایک بہت بڑا گناہ ہے.
اور معاف کرنا سیکھنا ہے تو محمد عربی سے سیکھیے جو فتح مکہ کے بعد سر جھکاے اپنی اونٹنی پہ بیٹھے تھے اور اہل مکہ کو سر عام معافی دے دی تھی اور پھر نیلسن منڈیلہ جیسے لیڈر جس نے ستایس سالہ قید کے بعد صبر و استقامت کا مظاہرہ کرتے ہوئے
اپنے پہ ظلم کرنے والوں کو معاف کر دیا تھا اور اپنا نام دنیا کے عظیم لیڈروں کی صف میں لکھوا لیا تھا تو معاف کرنا سیکھیے کدورتوں کو دلوں سے نکال کے جینا سیکھیے اپنی اپنی میں کو مار کے جینا سیکھیے یہی عبادت ہے.یہی زندگی ہے خدارا جینا سیکھیے
ڈاکٹر پونم نورین گوندل لاہور
drpunnamnaureen@gmail.com


Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

روزنامہ رہبر کسان

At 'Your World in Words,' we share stories from all over the world to make friends, spread good news, and help everyone understand each other better.

Active Visitors

Flag Counter

© 2024
Rahbar International